موتی میں سمندر کو پِرونے کی طرح کا
اک قطرہ کرے کام ڈبونے کی طرح کا
ادوں کے تسلسل سے پریشان سا ہوکر
اک کام تو کرتا ہوں میں ” رونے کی طرح کا”
عرصے سے مری نیند سے “یاداللہ ” نہیں ہے
جاگا بھی تو لگتا ہوں میں “سونے کی طرح کا “
ہاں یاد ہے جب آئے تو وہ گھر میں ہمارے
کچھ میں نے بِچھایا تھا ” بِچھونے کی طرح کا “
تکیہ تو نہیں لایا ہوں رومال میں اُ س کا
اِمشب ہے مجھے کام ” بِھگونے کی طرح کا “
شاکی ہی رہا رہا دل یہ مرا پاس تھا جب تک
اُ س نے بھی رکھا دل کو کِھلونے کی طرح کا
اس موڑ پہ یہ عشق مجھے لایا ہے یارو
نہ ہونے پہ لگتا ہے وہ ” ہونے کی طرح کا “
ساتھی وہ مرا ہوکے مرے ساتھ نہیں ہے
مفتی اُسے پایا بھی ہے ” کھونے کی طرح کا