کبھی سوچا ھے تم نے
اے محبت کے سوداگر
کہ محبت کے سودے میں سبھی خسارے
تُو نے میرے نام ہی کیوں منسوب کیے
میں تیری اسیری کے بھنور میں رہی ڈوبی
تیرے گرداب نے سبھی طوفان میرے نام کیے
تُو تھا آزاد پنچھی تجھے اُڑنا ہی تھا آخر
کبھی سوچا ھے تم نے
اے محبت کے صیاد
کہ تیری قید میں سبھی کلام میں نے تیرے نام کیے
جی چاھتا ھے نوچ لوں لفظ لفظ ورقٍ شاعری
تیری ذات سے منسوب جو میں نے سبھی اشعار کیے
زمانے کی اٍس رٍیت کو نہ سمجھ پائی “فائز“
اے میرے صنم!!! ذرا اتنا تو بتلا
تُو تھا اک سراب پھر سبھی سائے کیوں تُو نے میرے نام کیے؟