بات ایسی بھی کیا ہوئی اب کے
زندگی جیسے رُک گئی اب کے
کاجلوں سے پھوار گرتی ہے
شام کتنی ہے سرمئی اب کے
پھر اُسی بزمِ غم میں جانا ہے
کوئی پوشاک ہو نئی اب کے
صرف دِل کے معاملات نہیں
اور بھی درد ہیں کئی اب کے
آس کیا ہو کسی کے آنے کی
آسماں سے کہاں کوئی اب کے
سب بضد ہیں تو مان لیتے ہیں
اچھا اچھا ، چلو بھئی اب کے
پہلے یوسف زئی کے باغ میں تھی
ہے ملالہ جہاں زئی اب کے