ساحل کنارے ، ریت پر
چلتے دو قدوں کے نشان ہو
سورج کی ڈوبتی کرنیوں میں
دو جسم مگر
سائے میں ایک انسان ہو
لہریں پاوں کو آ کر چوم لے
اور ہواوں میں سرگوشیوں کی اتنہا ہو
چلتے چلتے رات ڈھل جائے
اور اوپر فلک پے چاند نکل آئے
اور تاروں بھرا آسمان ہو
سمندر میں لہریں
خوشی سے گھونج ُاٹھے
جب تیرے لبوں پے اظہار ہو
کچھ زلفیں چہرے پے آ کر الجھ جایئں
جب پیار سے سنوارتے
ُانہیں تیرے ہاتھ ہو
اور چاروں طرف اک بادل کی
نمی نمی برسات ہو
اور وقت وہی پے تھم جائے
جب چاندی کے ہاتھ میں چاند ہو
بس اتنی ہی خواہش تھی