وصال و پریم کے سپنے بکھر گئے سارے
ذرا سی بات پہ میلے اجڑ گئے سارے
وہ رنگ و روپ بہاروں کا چھن گیا جیسے
جمال, زیست کے نقشے بگڑ گئے سارے
کہاں وہ وعدے, وہ قسمیں کہ ساتھ جیںے کی
کوئی تو پوچھے کہ پیماں کدھر گئے سارے
کیا ہے بچھڑ کے بے روح وجود کی مانند
خیال و سوچ کے تانے سکڑ گئے سارے
براہ چشم جو دل میں اتر گئے طاہر!
گئے تو دل میں مرے درد بھر گئے سارے