اشک روکوں تو کبھی اشک بہانہ چاہوں
اندر اُٹھتے ہوئے طوفاں کو دبانہ چاہوں
میرے چہرے پر جَمی دُھول ہے بدگمانی کی
آبِ دیدہ کے قرینے میں نہانہ چاہوں
خواب و خواہش کے مستقل اَموات کے بعد
زندہ رہنے کا اب کوئ بہانہ چاہوں
بُجھے چراغ لیئے تاریکیوں کی وحشت میں
خُود ہی کو ڈھونڈتا اِک شخص دیکھانا چاہوں
رسمِ اُلفت میں تیری، ہِجر کا قیدی بن کر
تجھ سے ٹُوٹا ہوا رِشتہ بھی نِبہانا چاہوں
اپنا احوال کشی اب مجھ پر لاَزم ہے
کورا کاغذ اور ایک قلم اُٹھانا چاہوں
حُسینؔ ! اب ڈُوبتی دھڑکن کی رَوانی کے لیئے
اپنے ہاتھوں سے اپنے دل کو دُکھانا چاہوں