تیری باتوں کا جو فسانہ ہوا
تیری تضحیک کا نشانہ ہوا
میری آنکھوں میں ہے وہ جلوہ فگن
میرے غم سے جو آشنا نہ ہوا
دھندلی دھندلی ہے پیار کی صورت
تم سے کیسا یہ عاشقانہ ہوا
بجلی دل پہ گری مگر دیکھو
تم سے اظہار مدعا نہ ہوا
بزم الفت میں ، بزم یاراں میں
کوئی تیرا ، کوئی مرا نہ ہوا
تیری یادوں کا آج بھی مجھ سے
اک پرندہ بھی تو رہا نہ ہوا
وشمہ آنسو سنبھال کر رکھنا
ان سا کوئی نہیں خذانہ ہوا