گر چاہتا ہے تو بھی نہ دنیا خفا رہے
بہتر ہے اپنے درمیاں یہ فاصلہ رہے
تصویرِ حسنِ یار کو لے جاؤں کس طرف
جب سامنے نہ حسرتوں کا آئینہ رہے
شکوہ نہیں کہ دنیا میں بدنام ہم ہوئے
ہے ماجرا کہ مر کے بھی تم پر فدا رہے
ہوش و حواس لٹ گئے جن کے سرور میں
افسوس وہ نہ میکدے میں دلربا رہے
تتلی ! تمہارے حسن کو خوشبو کا واسطہ
گلشن میں تیری دید کا منظر سدا رہے
تشنہ خیالِ یار میں مردہ رہی حیات
وشمہ یہ ہم پہ عشق کے الزام کیا رہے