حسین آنکھوں کو کیسی بدُدعا دے گئے ہو
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaکبھی نا ختم ہونے
والا سوال دے گئے ہو
میری زندگی کو تم
کیسے زوال دے گئے ہو
مجھے اب خود پے وحشت ہوتی ہیں
تم ادھورے سے جواب دے گئے ہو
جب بلانا ہی نہیں تھا تو پھر کیوں
میرے بجھتے دیے میں آگ دے گئے ہو
میں زندہ ہوں یا نہیں شاید
یہی دیکھنا تھا تم نے
جو جاتے وقت پھر سے
خاموشی کا پیغام دے گئے ہو
میں پاگل ہوں یا پھر تیری دیوانی ہوں
جو پھر سے آنکھوں میں برسات دے گئے ہو
تم ایسے تو نا تھے
جیسے بن گئے ہو
جاناں ! تم تو جاتے جاتے مجھے
سوچوں کی کتاب دے گئے ہو
میں کتنا بھی غصہ کروں مگر
آخر میں تیری تلخیوں کو بھول جاتی ہوں
شاید تم اپنی چند پل کی محبت کو
مجھے گھول کے پلا گئے ہو
میں ایسی تو نا تھی جیسی بن گئی ہوں
تم آج پھر مجھے ُاداسی کی شام دے گئے ہو
رو رو کر اب تو میری آنکھوں
کا ُنور بھی ختم ہوتا جا رہا ہیں
نجانے تم ان حسین آنکھوں کو
کیسی بدُدعا دے گئے ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






