کبھی نا ختم ہونے
والا سوال دے گئے ہو
میری زندگی کو تم
کیسے زوال دے گئے ہو
مجھے اب خود پے وحشت ہوتی ہیں
تم ادھورے سے جواب دے گئے ہو
جب بلانا ہی نہیں تھا تو پھر کیوں
میرے بجھتے دیے میں آگ دے گئے ہو
میں زندہ ہوں یا نہیں شاید
یہی دیکھنا تھا تم نے
جو جاتے وقت پھر سے
خاموشی کا پیغام دے گئے ہو
میں پاگل ہوں یا پھر تیری دیوانی ہوں
جو پھر سے آنکھوں میں برسات دے گئے ہو
تم ایسے تو نا تھے
جیسے بن گئے ہو
جاناں ! تم تو جاتے جاتے مجھے
سوچوں کی کتاب دے گئے ہو
میں کتنا بھی غصہ کروں مگر
آخر میں تیری تلخیوں کو بھول جاتی ہوں
شاید تم اپنی چند پل کی محبت کو
مجھے گھول کے پلا گئے ہو
میں ایسی تو نا تھی جیسی بن گئی ہوں
تم آج پھر مجھے ُاداسی کی شام دے گئے ہو
رو رو کر اب تو میری آنکھوں
کا ُنور بھی ختم ہوتا جا رہا ہیں
نجانے تم ان حسین آنکھوں کو
کیسی بدُدعا دے گئے ہو