حصے کے آسمان سے آگے نہ بڑھ سکے
کچھ اپنی داستان سے آگے نہ بڑھ سکے
ہاں حاصلِ خلوص تھے کچھ لوگ اور ہم
خوابوں کے آستان سے آگے نہ بڑھ سکے
ملنے کو چاند آ گیا ہم کو زمین پر
ہم اپنے خاکدان سے آگے نہ بڑھ سکے
ممکن ہے شہرِ عشق میں زندہ ملیں کبھی
جو پیار کے نشان سے آگے نہ بڑھ سکے
کچھ لوگ ہیں جو غیر کی خوشبو کو ڈھنڈتے
اپنے ہی گلستان سے آگے نہ بڑھ سکے
محدود ہو کے رہ گئے الفاظ ِ زندگی
وشمہ مرے گمان سے آگے نہ بڑھ سکے