درگاہ ء پہ اک بجھتا سا دیا ہے
نام ہم نے جسے محبت کا دیا ہے
اک تو اک تیرے وصل کی بات
منسوب ہر لفظ تجھ سے ہی کہا ہے
میرے ظرف پہ انگلیاں اٹھانے والو
اپنے کردار کا پرکھو وصف کیا ہے
دشت ء ذات میں بکھر کے ہم نے
زخم ہر ایک خود اپنا سیا ہے
اپنی ذات کے محور میں ہم جلنے والے
دھواں سلگنے کا کب اپنا اٹھا ہے
شامل مجھ میں رہا تو میری طرح
زندگی میری کو تو ہی تو جیا ہے
آسیب ء درد رہا اس پہ سدا
نام جس نے محبت کا لیا ہے
گرا کر اناۓ ذات بھی اپنی عنبر
ہم نے خود کو بھی تیرے نام کیا ہے