روز اک موڑ یہ کیوں آپ نیا کرتے ہیں
اس گزر گاہ پہ دیکھیں گے کیا کرتے ہیں
جانے کیسی تھی مرے ہونٹ پہ رکھی ہوئی پیاس
بس یہی سوچ کے اب رب سے دعا کرتے ہیں
آج اُترا وہ مری بات کی گہرائی میں
اب سہولت سے وہ ہر بات کہا کرتے ہیں
تُو نے آندھی کو کھُلی چھوٹ جو دے رکھی تھی
کب تلک خیر سے رکھتا وہ ڈرا کرتے ہیں
کوئی اندازہ لگائے مری مجبوری کا
تُجھ پہ کرنا تھا بھروسہ کیا کرتے ہیں
تُجھ کو دعویٰ تھا ترے فن میں تو یکتائی کا
کوزہ گر چاک سے ادھورا ہوا کرتے ہیں
اس قدر کہہ تو دیا اُس نے: چلی جا وشمہ
اس بہانے سے وہ اب مجھ سے جفا کرتے ہیں