روز اک موڑ یہ کیوں لاتا فسانے میرے
اس گزر گاہ پہ دیکھے ہے خزانے میرے
جانے کیسی تھی مرے ہونٹ پہ رکھی ہوئی پیاس
رو پڑا ہاتھ اُٹھائے پہ ہی جانے میرے
آج اُترا وہ مری بات کی گہرائی میں
کچھ سہولت سے دیا ہے جو دعانے میرے
تُو نے آندھی کو کھُلی چھوٹ جو دے رکھی تھی
کب تلک خیر سے رکھتا وہ سرہانے میرے
کوئی اندازہ لگائے مری مجبوری کا
تُجھ پہ کرنا پڑا ہے بھروسہ جو جانے میرے
تُجھ کو دعویٰ تھا ترے فن میں تو یکتائی کا
کوزہ گر چاک سے اُترا میں ہی پانے میرے
اس قدر کہہ تو دیا اُس نےچلی جا اے وشمہ
اس بہانے سے ہوا مجھ سےزمانے میرے