چل تجھے خواب کی بستی سے چرا سکتے ہیں
سب کی نظروں سے بچا کر میں چھپا سکتے ہیں
روح میں جس نے یہ دہشت سی مچا رکھی ہے
اس کی تصویر گماں بھر تو بنا سکتے ہیں
اشک سے خاک ہوئی تر یہی بس کافی ہے
ایک بے جان سا پیکر تو کھلا سکتے ہیں
دور سے آئی گلی میں کہیں قدموں کی صدا
اپنا گھر چھوڑ کے مجھ کو وہ سنا سکتے ہیں
رات بھر موج ہوا سے تری خوشبو آئی
چاند تاروں میں ترا نقش پا سکتے ہیں
جانے کیوں آ گئی پھر یاد اسی موسم کی
پھر بھی ہاتھوں کو دعاؤں میں اٹھاسکتے ہیں
جس نے وشمہ کو ہواؤں سے بچائے رکھا
ذات کے کرب کو لفظوں میں دبا سکتے ہیں