سرمئی شام میں ملنے آؤ نا ں
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar , Jalal Pur Jattan, Gujrat سرمئی شام میں ملنے آؤ نا ں
کبھی یوں میں تجھے ممحبت کے آ نچل میں چھپا لوں
تیری چاہت یوں اوڑھ لو ں خود پہ
جیسے دن کی روشنی میں شام میں ڈھلنے لگے
جو دن کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے
سنو جانِ وفا میرے
تمھا را عکس مجھے اپنے رنگ میں رنگ چکا ہے
دل میرا تمھارے ہی واسطے تھم چکاہے
میرے جذبے،میری محبت ساری ،میرا وجدان، میں اپنا سب کچھ ہاری
تیری باتو ں، تیری یادوں سے جھومتی ہو ں
تیری آنکھوں کو یو ں چومتی ہوں
کہ سرمئی شام کی سیاہی آسما ن کو چھو جائے
تو جو ملنے آجائے ،تو پھر بات ہی کیا ہے
تیرے جذبوں کی صداقت میری روحِ روشن کو سنھبا ل رکھے گی
تیرا آنا اور ٹھہرنا شامِ محبت کی دہلیز پر ، مجھے جل تھل کر دے گا
تیرا چھونا مجھے اور میر ا سِمٹ جانا تم میں ہمیں مکمل کر دے گا
تُو جو اُترے گا اِس شام میں،میرے دل کے آسمان پر
اُس چمکتے چاند کی مانند ،
تو چھو کے میں بھی سمٹوں گی ، تیری آنکھو ں کے درپن کو
جو ہیں حسین شام کی مانند
تو جانِ وفا میرے ، تو جو اِ س سرمئی شام میں ملنے آجائے
تو پنہاں ہو جاؤ ں تجھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ میں موم سی پگلوں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فنا ہو جاؤں تجھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔َ َََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






