طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں ہی سنا رہے ہیں
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں یہ بتا رہے ہیں
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں ہی پڑھا رہے ہیں
مرے خیالوں میں آج بھی خواب عہد رفتہ کے جاگتے ہیں
تمہارے پہلو میں کاہش یاد آستاں وہ ستا رہے ہیں
سحر کی امید اب کسے ہے سحر کی امید ہو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں یہ جلا رہے ہیں
مزا تو اُس وقت جھوٹ سچ کا کُھلے کہ ہے کون راستے پر
خدا کے آگے مری تمہاری اگر ہوں لب کی دعا رہے ہیں
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں ہی پڑھا رہے ہیں
نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گئی ہوں کہ مجھ کو وشمہ
خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں وہ کھلا رہے ہیں