لبوں پر ابھی آہ و زاری نہیں ہے
یہ نفرت کی دنیا ہماری نہیں ہے
بہاروں کے موسم میں ملنا تھا اُس نے
خزاؤں کو کچھ بےقراری نہیں ہے
کئی دن سے دیکھا نہیں اس کا چہرہ
نظر بھی وفا کی اتاری نہیں ہے
تجھے دیکھنے آتی جاتی ہے دنیا
مرا دل مری جاں بھکاری نہیں ہے
کوئی آدھا حصہ مجھے دے کے جائے
یہ دنیا کی حسرت تو ساری نہیں ہے
تُو کرتا رہا کر ابھی ذکرِ وشمہ
ابھی ہار کر بھی وہ ہاری نہیں ہے