لمحوں کے تعاقب میں گزر کیوں نہیں جاتا
یوں وقت تو مل جائے نظر کیوں نہیں جاتا
لے آئی ترے در پہ ہمیں بھوک ہماری
جو دیکھے محبت سے نظر کیوں نہیں جاتا
کچھ لوگ یہاں پیار کے جنگل سے گزر کر
خود شہر خرافات میں گھر کیوں نہیں جاتا
ہو جائےکسی طورمکمل یہ غزل بھی
شعروں میں تنوع کے گہر کیوں نہیں جاتا
جس سمت سے آئے تھے اُسی سمت کو چل کر
اعمال گزشتہ کا ثمر کیوں نہیں جاتا
اک چاند جو اترا تھا کبھی دل کی زمیں پر
اس چاند کی دنیا میں ہی گھر کیوں نہیں جاتا
اس شام کی دنیا کے اندھیروں سے نکل کر
ہم رات کے راہی ہیں سحر کیوں نہیں جاتا
پھر کوئی صدا اپنے تعاقب میں ہے وشمہ
جب اپنی وفاؤں کا اثر کیوں نہیں جاتا