لپٹا ہوا چہرہ ہے اندھیرے کی ردا میں
اور درد ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا میں
پھر کرب کی اس دل میں وبا پھیل رہی ہے
پھر آگ سی بھڑکی ہے یہ سانسوں کی ہوا میں
حیرت ہے کوئی آنکھ سے آنسو نہیں نکلا
ویسے تو کڑا وقت بھی کاٹا ہے دعا میں
روتی ہوں تری یاد کے دامن سے لپٹ کر
جب اونگھنے لگتی ہوں میں خوابوں کی فضا میں
یادوں کے تعاقب میں گزاری ہیں یہ صدیاں
کیا لطف ملا مجھ کو تری کرب و بلا میں
اس بام پہ کیا پیار کی میں شمع جلاؤں
نام اس نے اگر لکھا مرا عہد جفا میں
وہ پیار کا پنچھی ہے پلٹ آئے گا وشمہ
اک تیر محبت کا جو پھینکوں گی ہوا میں