یادوں کے گلستان میں مجھے آباد رہنے دو
الفت کے جزیروں میں کچھ لمحے شاد رہنے دو
غمِ جانا ہی کافی ہیں میری جان لینے کو
غمِِ دنیا سے مجھے تو بس تم آزاد رہنے دو
وہ بیتابی ملنے کی زباں سے کچھ نہیں کہنا
ہائے وصل کے وہ حسیں منظر کچھ تو یاد رہنے دو
نکالتے کیوں ہو مجھ کو تم تنہائی کی جنت سے
جنون میں لُٹنے دو تم مجھے برباد رہنے دو
چھین لو مجھ سے تم سب کچھ مگر عرض ہے ساجد
ماضی کی کوئی خواہش کوئی فریاد رہنے دو