محبت کا ہر سو سماں اڑ رہا ہے
وہ خوشبو کا پیکر کہاں اڑ رہا ہے
اندھیرا یہ کیوں ہے چراغوں کے نیچے
فضاؤں میں ہر سو دھواں اڑ رہا ہے
میں کیسے اسے حالِ دل اب بتاؤں
جو سنتے ہوئے داستاں اڑ رہا ہے
وہ کیسے اٹھے پھر حقائق سے پردہ
ترے دل میں دشتِ گماں اڑ رہا ہے
پرندہ ہے طوفانِ وحشت کی زد میں
مگر وہ خدا کی اماں اڑ رہا ہے
مری روح کے اب بدن سے نکل کر
"یہ میرا تخیل کہاں اڑ رہا ہے"
مقدر بنے گی شکست اس کی وشمہ
جو لے کے عدو کی کماں اڑ رہا ہے