سمندر کی روانی ہوگئی ہے
ابھی تاروں گلوں ،کلیوں سے کھیلو
۔یہ منتر بھی پرانی ہوگئی ہے
مری آنکھوں کی گہرائی میں دیکھو
محبت شب کی رانی ہوگئی ہے
وہ بیٹھے ہیں ترے رحم و کرم پہ
دل کی راجدانی ہوگئی ہے
پلٹ آئے گا وہ صحرا نشیں ہے
کوئی تو مہربانی ہوگئی ہے
اگر کہنا ہوا مشکل زباں سے
اشاروں میں روانی ہوگئی ہے
ثمر پختہ ہمارا وہ رہے گا
شجر کی زندگانی ہوگئی ہے
اتر کر دل کے آئینوں میں وشمہ
محبت کی نشانی ہوگئ ہے