مست ہوائیں نشیلی گھٹائیں
مست ہوائیں نشیلی گھٹائیں
رم جھم بارش برسی
پھر ساون نے دی دستک
پھر یادوں نے بے قرار کیا
پھر دل بھر بھر آیا بادل جیسے
پھر دل میں طوفان اٹھے آندھی کی طرح
پھر بدنام ہوا اس کا جہاں
جاتے جاتے ساون نے پھر
سرگوشی کی میں آؤنگا
لوٹ کہ
پھر زخم ہرے ہو جائیں گے