میرے محبوب مجھے دل سے دعا دے آ کر
کتنی بے چین ہوں اک بار صدا دے آکر
آج تنہا ہوں اداسی بھرے ویرانے میں
کیسی مجبوری ہے اک بار جگا دے آ کر
توڑ رسموں کی ، رواجوں کی سبھی دیواریں
دل کی بستی میں مجھے آج بسا دے آکر
مرے افسانے کا اچھا کوئی انجام تو ہو
اپنی خوشبو سے کوئی پھول کھلا دے آکر
سدا اچھا یہ نہیں لگتا مجھے بہتا دریا
اشک پلکوں سے کسی طور گرا دے آ کر
تم نے گر کی ہے کسی سے یہ محبت وشمہ
اس کی زنجیر زمانے میں ہلا دے آ کر