میرے ہمدم
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, Reading UK میرے ہمدم
اے مرے دوست
اے جیون ساتھی
یاد ہے تم نے یہ اک روز کہا تھا مجھ سے
تیرے ہونٹوں پہ کسی گل کا گماں ہوتا ہے
تیری سانسوں سے گلابوں کی مہک آتی ہے
تیری آنکھیں ہیں کہ کھلتے ہوئے شفاف کنول
ان میں اپنی مجھے تصویر نظر آتی ہے
(ایسا کچھ بھی نہ تھا یہ صرف محبت تھی تری
تو نے سمجھا تھا جو ایسا تو عنائیت تھی تری
جانتی ہوں کہ بڑی عام سی صورت ہے مری
چن لیا تم نے مجھے ساتھی یہ قسمت تھی مری)
آج کیا بات ہوئی کیوں ہے خفا تو مجھ سے؟
نہ وہ پہلی سی محبت نہ مروت ہے کوئی
ہے اگرچہ کوئی شکوہ نہ شکائت ہے کوئی
پھر بھی لہجے میں ترے اتنی رعونت کیوں ہے ؟
بے وجہ مجھ سے یہ بے نام عداوت کیوں ہے ؟
تھی وجہ کوئی تو پھر مجھ سے کہا تو ہوتا ؟
کیا ہوئی مجھ سے خطا مجھ کو پتہ تو ہوتا
روٹھ کر مجھ سے مری جان جلاتے کیوں ہو
میرے اپنے ہو تو پھر مجھ کو ستاتے کیوں ہو؟
مجھ کو اپنی وہی پہلی سی محبت دے دو
پاس آنے کی مجھے اپنے اجازت دے دو
کڑوے لہجے میں نہ اب بات کرو تم مجھ سے
اپنے لہجے کو وہی پھر سے حلاوت دے دو
ساتھ دو دن کا نہیں ساتھ ہے جیون بھر کا
کھل کے کہہ دو تمہیں کس بات کا ہے اب دھڑکا
دل کی دھڑکن مری رک جائے نہ خاموشی سے
رہ کے چپ یوں نہ لگاؤ مرے دل پر چرکا
میرے ہمدم
اے مرے دوست
اے جیون ساتھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






