نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم بھی پھراُس پر اِک کاروواں کی طرح
وہ زہر ڈُوبے، توسّط سے اُن کی گُفت و شُنید
ہیں ثبت دِل پہ ہمارے کھُدے نشاں کی طرح
غضب سرُورسا پاتے تھے اُس کی صحبت میں
پسند، دِل سے ہمیں تھا وہ تافتاں کی طرح
کریں، خلش کی دُعائے حصُول میں شامل
اُسے، جو دُور ہے اُن سے قرارِ جاں کی طرح
خِزاں گزیدہ ہے انجامِ کار سے وہ، خلش !
چمن جوسینچا تھا آبا نے باغباں کی طرح