وقت رخصت وہ ہاں میں ہاں ملا کر گیا
جانے والا دل کی باتیں وہ مجھ کو بتا کر گیا
میرا ہو گا وہ اک دن یہی مجھ سے وعدہ کئیے
امیدوں کے دئیے وہ مجھ میں جلا کر گیا
بڑی دشوار ہیں راہیں محبت کے جزیروں میں
زوال محبت کی ہر نشانی وہ مجھ کو بتا کر گیا
مقام انتہا پر بے بسی کے عالم میں
اشکوں کے موتی وہ میرے دامن میں گرا کر گیا
وہ چاہتا تو سینے سے لگا سکتا تھا مجھ کو
ہائے کہ وہ شخص آداب محبت مجھ کو سکھا کر گیا
الفتوں کے آشیانوں سے کبھی راحتیں نہیں ملتی
شمع پہ جلتے کئی پروانے وہ مجھ کو دکھا کر گیا
عشق کے سمندر میں کسی کو تہرنا نہیں آیا
ابھرتی لہروں میں کتنے بھنور وہ مجھ کو دکھا کر گیا
بھٹک نہ جائے ساجد کہیں پر کیف نظاروں میں
اپنے آنچل کی ٹھنڈی ہوا میں وہ مجھ کو سلا کر گیا