وہ جو تلوار اٹھاتا ہے تو ڈر جاتا ہے
میں جو بڑھتی ہوں ذرا آگے تو سر جاتا ہے
اس قدر زخم عداوت ہے مرے سر پہ ترا
تھوڑا جھکتی ہوں تو کچھ اور یہ بھر جاتا ہے
مرا سایہ ہے مری مثل ہواؤں جیسا
چاند نکلے تو کہیں لوٹ کے گھر جاتا ہے
کاش اب کے بھی ملاقات نہ ہونے پائے
تجھ سے جو آنکھ ملاتا ہے وہ مر جاتا ہے
چاند کی سمت جو اڑتی ہوں میں پنچھی بن کر
راستہ ساری فضاؤں کا سنور جاتا ہے
میری خواہش کے کبھی ہاتھ تو پیلے کر دو
جذبہ اک بار جو بنتا ہے بگڑ جاتا ہے
مجھ کو اک بار محبت سے پکارو وشمہ
تجھ سے جو پیار بڑھاتا ہے وہ تر جاتا ہے