وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس سے میسّراب، رہیں لمحے اُس کے وصال کے
یُوں خِرام جیسے نسیم سے کوئی شاخِ گُل ہو ہِلا ہُوا
تِرے ناز و ناپ کا ہر قدم، رہے دِل کو میرے اُچھال کے
جی ہمارا چاہے کہ ہم کبھی کہیں اُن سے اپنی غزل کوئی
جو حجاب ہم سے ضرور تو، سُنیں بیچ پردہ ہی ڈال کے
کوئی خوش خیالی کی حد بھی ہے، کہ دِکھائے منظراُسی طرح
جو تھے پیش پہلے نظر کے سب، بُجھے منظروں کو اُجال کے
ہے عجیب جلوۂ زیست اب، نہ یقین ہو، نہ گُماں ہے سب
تھے ہُنر سے پُر یہی اِس نگر اُٹھے ہاتھ سارے سوال کے
نہیں فکرِ فردا کوئی مجھے، نہ ہی باز پُرس کا خوف ہے
کئے حق ادا سب بصدقِ دل جو تھے واجب اہل وعیال کے
تِرے حق میں لب پہ خلش کے اب رہے روز و شب یہ دُعا، خُدا
تجھے استقامتِ خُوب دے، سبھی وَسوَسوں سے نِکال کے