ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, منیلا آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






