ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
اس پہ کچھ راز تمہارے بھی چھپا رکھے ہیں
جس کی راہوں میں کبھی ہم نے بچھائیں پلکیں
اس نے اس راہ میں اب خار بچھا رکھے ہیں
جو بھی دشمن تھے مرے لوگ زمانے بھر میں
اس نے ہمدرد وہی اپنے بنا رکھے ہیں
ہائے اک بار بھی آنکھیں نہ ہوئیں نم ان کی
ہم نے دکھڑے تو بہت ان کو سنا رکھے ہیں
اس کے سینے میں جو پوشیدہ رہے تھے اب تک
اس نے وہ راز بھی ہم کو ہی بتا رکھے ہیں
وہ جو تحفے میں ملے تھے کبھی ان سے ہم کو
ہم نے وہ پھول کتابوں میں سُکھا رکھے ہیں
جن کو بہنا تھا جدائی پہ کسی کی ارشیؔ
ہم نے وہ اشک بھی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں