پھر محبت نے لی ہے انگڑائی
پھر مقّدر میں میرے تنہائی
اُس نے دیکھا جو غیر کی جانب
میری ایسے میں آنکھ بھر آئی
یہ محبت کی داستاں ہے عجب
ہر ڈگر پر ہے اس میں رسوائی
تیری یادوں کے کانٹے چن چن کر
میں مناتی ہوں شامِ تنہائی
فکرِ دشمن میں مست رہتا ہے
بے مروّت ہے میرا ہرجائی
ہم جو گلشن پرست تھے وشمہ
زیست اپنی ہے آج صحرائی