Poetries by Ahmad Faisal Ayaz
یہ داستاں ہے بے نام میرا خیال تیری زندگی کا عکس ہے
میرے لفظ ترجماں ہیں جذبوں کے
جو کسی پل تھے ہمارے درمیاں رہے
اور جیسے جیسے پل گزرتے جاتے ہیں
میرے قلم کو اور بے چین کر دیتے ہیں
اور میں یہ سوچتا ہوں
یہ الفاظ جو چند جمع کررکھے ہیں
یہ داستاں جو ابھی نامکمل سی ہے
کہیں ان کی کوئی پہچان تو ہو
کوئی ان کا کہیں اک نام تو ہو
اور پھر میں اس داستاں کو
نام تیرے کرنے کا سوچتا ہوں
کیوں کہ تجھی سے لفظ پاکر اک تجھی کو لکھتا ہوں
مگر ڈرتاہوں
یہ داستاں جو ابھی ادھوری سی ہے
تیری شوخ طبیعت پہ یہ گراں نہ گزرے
کہیں تیرے احساس کو ٹھیس نہ لگے
کہیں دل کو تیرے برا نہ لگے
یہ سوچ کر میں نے اس داستاں کو
دل ہی میں اپنے چھپائے رکھا
اور جب لکھا اس کو دل کے کاغذ پر
اک نام اس کو یہ دے دیا
بے نام سی یہ داستاں ہے
گمنام سے الفاظ
اس داستاں کو اب پکاروں گا میں
یہ داستاں ہے بے نام Ahmad Faisal Ayaz
میرے لفظ ترجماں ہیں جذبوں کے
جو کسی پل تھے ہمارے درمیاں رہے
اور جیسے جیسے پل گزرتے جاتے ہیں
میرے قلم کو اور بے چین کر دیتے ہیں
اور میں یہ سوچتا ہوں
یہ الفاظ جو چند جمع کررکھے ہیں
یہ داستاں جو ابھی نامکمل سی ہے
کہیں ان کی کوئی پہچان تو ہو
کوئی ان کا کہیں اک نام تو ہو
اور پھر میں اس داستاں کو
نام تیرے کرنے کا سوچتا ہوں
کیوں کہ تجھی سے لفظ پاکر اک تجھی کو لکھتا ہوں
مگر ڈرتاہوں
یہ داستاں جو ابھی ادھوری سی ہے
تیری شوخ طبیعت پہ یہ گراں نہ گزرے
کہیں تیرے احساس کو ٹھیس نہ لگے
کہیں دل کو تیرے برا نہ لگے
یہ سوچ کر میں نے اس داستاں کو
دل ہی میں اپنے چھپائے رکھا
اور جب لکھا اس کو دل کے کاغذ پر
اک نام اس کو یہ دے دیا
بے نام سی یہ داستاں ہے
گمنام سے الفاظ
اس داستاں کو اب پکاروں گا میں
یہ داستاں ہے بے نام Ahmad Faisal Ayaz
ٹھہرے میرے اشکوں کا کچھ مول ٹھہرے میرے اشکوں کا کچھ مول تو سہی
کچھ تلخ ہی صحیح مگر تو بول تو سہی
کیسے لگاؤ گے تم شب ہجر کا حساب
بھاری ہے اک اک لمحہ تول تو سہی
اچھا ہے وقت رخصت ساتھ رہو گے تم
میں پیتا ہوں زہر ابھی تو گھول تو سہی
خوب ہے یہ عادت سخن یار کی
کھلیں گے اسطرح کچھ پول تو سہی
بنا بیٹھا ہے گداگر تیرے در پہ کب سے
خواہش ہے کہ جانے کو بول تو سہی
بنا لیتا ہے دیوانہ اسے اپنا تکیہ کلام
سن لے محبوب کا اک قول تو سہی
ہوا کو بنا لے زخم دل کا رازداں
عیاز دامن کو تو اپنے کبھی کھول تو سہی Ahmad Faisal Ayaz
کچھ تلخ ہی صحیح مگر تو بول تو سہی
کیسے لگاؤ گے تم شب ہجر کا حساب
بھاری ہے اک اک لمحہ تول تو سہی
اچھا ہے وقت رخصت ساتھ رہو گے تم
میں پیتا ہوں زہر ابھی تو گھول تو سہی
خوب ہے یہ عادت سخن یار کی
کھلیں گے اسطرح کچھ پول تو سہی
بنا بیٹھا ہے گداگر تیرے در پہ کب سے
خواہش ہے کہ جانے کو بول تو سہی
بنا لیتا ہے دیوانہ اسے اپنا تکیہ کلام
سن لے محبوب کا اک قول تو سہی
ہوا کو بنا لے زخم دل کا رازداں
عیاز دامن کو تو اپنے کبھی کھول تو سہی Ahmad Faisal Ayaz
ان آنکھوں میں دل کا قرار رہتا ہے ان آنکھوں میں دل کا قرار رہتا ہے
در طبیب پہ جانا بے کار رہتا ہے
کرتے رہیں جو تم سے پیار سو کیا
کرنا چاہا تھا کبھی جو پیار رہتا ہے
اس دل کے مسیحا سے کوئی جا کر کہے
دل دھڑکتا تھا کبھی جو بیمار رہتا ہے
دانستہ تو یہ لب نہ کھولے تو اور بات
ہروقت ان پہ مچلتا اک اظہار رہتا ہے
اس شخص کو پیار کی حدیں نہ سمجھا
وہ شخص جو ہر حد سے پار رہتا ہے
ساری رات ہی آہیں بھرتا ہے دل
سر شام سے ہی تیرا انتظار رہتا ہے
ٹھکانا بدلا نہ اپنا خواہ مٹ گیا میں
عیاز رہتا تھا جہاں وہاں مزار رہتا ہے Ahmad Faisal Ayaz
در طبیب پہ جانا بے کار رہتا ہے
کرتے رہیں جو تم سے پیار سو کیا
کرنا چاہا تھا کبھی جو پیار رہتا ہے
اس دل کے مسیحا سے کوئی جا کر کہے
دل دھڑکتا تھا کبھی جو بیمار رہتا ہے
دانستہ تو یہ لب نہ کھولے تو اور بات
ہروقت ان پہ مچلتا اک اظہار رہتا ہے
اس شخص کو پیار کی حدیں نہ سمجھا
وہ شخص جو ہر حد سے پار رہتا ہے
ساری رات ہی آہیں بھرتا ہے دل
سر شام سے ہی تیرا انتظار رہتا ہے
ٹھکانا بدلا نہ اپنا خواہ مٹ گیا میں
عیاز رہتا تھا جہاں وہاں مزار رہتا ہے Ahmad Faisal Ayaz
وہ درد نہ رہا وہ الم نہ رہا وہ درد نہ رہا وہ الم نہ رہا
وہ رت نہ رہی وہ موسم نہ رہا
غم تو اصل میں تنہائیوں کا تھا
جب تنہائی نہ رہی کوئی غم نہ رہا
سیدھی کر کے دیکھیں جب سے راہیں اپنی
زندگی میں پھر ہماری کوئی خم نہ رہا
اشکوں سے میرے سب دھل گئے ہیں شائد
سینے پہ اب میرے کوئی زخم نہ رہا
دو لفظوں سے کسی کے رو پڑتا ہے
دل پہ کبھی جو تھا بھرم نہ رہا Ahmad Faisal Ayaz
وہ رت نہ رہی وہ موسم نہ رہا
غم تو اصل میں تنہائیوں کا تھا
جب تنہائی نہ رہی کوئی غم نہ رہا
سیدھی کر کے دیکھیں جب سے راہیں اپنی
زندگی میں پھر ہماری کوئی خم نہ رہا
اشکوں سے میرے سب دھل گئے ہیں شائد
سینے پہ اب میرے کوئی زخم نہ رہا
دو لفظوں سے کسی کے رو پڑتا ہے
دل پہ کبھی جو تھا بھرم نہ رہا Ahmad Faisal Ayaz
نہ تو یاد ہے نہ تیرا وہم یاد نہ تو یاد ہے نہ تیرا وہم یاد
تجھ سے بچھڑنے کا فقط غم یاد
کیا کیا جائے اپنی مسکینی کا کہ اب
مے کدہ یاد ہے ہم کو نہ حرم یاد
جھانکتے ہیں بار بار میرے گریباں کے اندر
ابھی تک ہیں ان کو اپنے ستم یاد
پتھر تو چاروں اور سے برسے تھے لیکن
مجرم ہیں یاد ہم کو اور نہ محرم یاد
ہم آج بھی لکھتے ہیں جب خونی تحریریں
آتے ہیں بے تحاشہ پھر تیرے کرم یاد
جب بھی دیکھتا ہوں کچھ چاند چہرے
دل کے آتے ہیں کچھ بھرم یاد
بس یہی ہے عیاز انجام محبت
ہمیں غم یاد ہیں اور غموں کو ہم یاد Ahmad Faisal Ayaz
تجھ سے بچھڑنے کا فقط غم یاد
کیا کیا جائے اپنی مسکینی کا کہ اب
مے کدہ یاد ہے ہم کو نہ حرم یاد
جھانکتے ہیں بار بار میرے گریباں کے اندر
ابھی تک ہیں ان کو اپنے ستم یاد
پتھر تو چاروں اور سے برسے تھے لیکن
مجرم ہیں یاد ہم کو اور نہ محرم یاد
ہم آج بھی لکھتے ہیں جب خونی تحریریں
آتے ہیں بے تحاشہ پھر تیرے کرم یاد
جب بھی دیکھتا ہوں کچھ چاند چہرے
دل کے آتے ہیں کچھ بھرم یاد
بس یہی ہے عیاز انجام محبت
ہمیں غم یاد ہیں اور غموں کو ہم یاد Ahmad Faisal Ayaz
کوئی بات نہیں۔۔۔۔کوئی بات نہیں فقط رونے کو چاہیے بہانا کوئی بات نہیں
سمجھاتا ہے ہم کو زمانہ کوئی بات نہیں
گراں گزرے تو گزرے کوئی بات ہم پر
تیرا بار بار آزمانا کوئی بات نہیں
محبت کا جنوں ہمارا دیوانگی ہی سہی
کوئی کہتا ہے اگر دیوانہ کوئی بات نہیں
کبھی سے زیادہ قریب تھا جو
آج ہو گیا ہے بیگانہ کوئی بات نہیں
جام بانٹتے بانٹتے اکثر وہ ہمارا
تشنہ لب رہ جانا کوئی بات نہیں
اٹھائیں گے ہر صدمہ دل و جگر پہ اپنے
غم لازم ہے گر اٹھانا کوئی بات نہیں
ہر قہر و ستم کے بعد عیاز
پھر ان کا وہ سمجھانا کوئی بات نہیں Ahmad Faisal Ayaz
سمجھاتا ہے ہم کو زمانہ کوئی بات نہیں
گراں گزرے تو گزرے کوئی بات ہم پر
تیرا بار بار آزمانا کوئی بات نہیں
محبت کا جنوں ہمارا دیوانگی ہی سہی
کوئی کہتا ہے اگر دیوانہ کوئی بات نہیں
کبھی سے زیادہ قریب تھا جو
آج ہو گیا ہے بیگانہ کوئی بات نہیں
جام بانٹتے بانٹتے اکثر وہ ہمارا
تشنہ لب رہ جانا کوئی بات نہیں
اٹھائیں گے ہر صدمہ دل و جگر پہ اپنے
غم لازم ہے گر اٹھانا کوئی بات نہیں
ہر قہر و ستم کے بعد عیاز
پھر ان کا وہ سمجھانا کوئی بات نہیں Ahmad Faisal Ayaz
چلو اک نئے سرے سے سجاتے ہیں زندگی چلواک نئے سرے سے سجاتے ہیں زندگی
کچھ نئی منزلیں کچھ نئے راستے
کچھ نئے مرحلے کچھ نئے ضابطے
اک نئے آسماں کی تلاش میں
کچھ نئے پروں کو سنوار لیں
اک نئی پھر سے اڑان بھریں نئی زندگی کے واسطے
چلو اک نئے سرے سے سجاتے ہیں زند گی
سب غموں کو اب بھلا کر
جینا ہے سر اٹھا کر
اک نئے آشیاں کی تلاش میں
گھر میں خوشیاں نئی سجا کر
چلو اک نئے سرے سے سجاتے ہیں زندگی
زندگی ہم سے ہے جو چھن چکی
کیوں اس پر بیٹھے اب اشک بہائیں ہم
اک گلستاں تھا ہمارا جو اجڑ چکا
کیوں نہ نئے سرے سے اسے سجائیں ہم
اور دنیا کو یہ پیغام اپنا دے جائیں ہم
چلو اک نئے سرے سے سجا تے ہیں زندگی Ahmad Faisal Ayaz
کچھ نئی منزلیں کچھ نئے راستے
کچھ نئے مرحلے کچھ نئے ضابطے
اک نئے آسماں کی تلاش میں
کچھ نئے پروں کو سنوار لیں
اک نئی پھر سے اڑان بھریں نئی زندگی کے واسطے
چلو اک نئے سرے سے سجاتے ہیں زند گی
سب غموں کو اب بھلا کر
جینا ہے سر اٹھا کر
اک نئے آشیاں کی تلاش میں
گھر میں خوشیاں نئی سجا کر
چلو اک نئے سرے سے سجاتے ہیں زندگی
زندگی ہم سے ہے جو چھن چکی
کیوں اس پر بیٹھے اب اشک بہائیں ہم
اک گلستاں تھا ہمارا جو اجڑ چکا
کیوں نہ نئے سرے سے اسے سجائیں ہم
اور دنیا کو یہ پیغام اپنا دے جائیں ہم
چلو اک نئے سرے سے سجا تے ہیں زندگی Ahmad Faisal Ayaz
دل کو میرے پھر کیوں آرام آتا نہیں دل کو میرے پھر کیوں آرام آتا نہیں
جب لب پہ میرے کوئی نام آتا نہیں
یوں تو آتے ہیں بہت لوگ تماشہ کیلئے
گھر جلتے ہیں تو کوئی کام آتا نہیں
پختگی درد سے ملتی ہے محباں کو ہمیشہ
محبت کو بنا اس کے دوام آتا نہیں
وقت آغاز سے ہے ہم کو یہ فکر
کچھ آسانی سے وقت اختتام آتا نہیں
حسن پر اپنے وہ نازاں بھی ہے لیکن
سامنے کبھی وہ میرے سر عام آتا نہیں
کچھ یوں پھیلی وحشت تنہائی گھر میں میرے
جھونکا ہوا کا یہاں کسی شام آتا نہیں
دوری سخن سے سہی نہ جائے گی عیاز
سوا اس کے ہمیں کچھ کام آتا نہیں Ahmad Faisal Ayaz
جب لب پہ میرے کوئی نام آتا نہیں
یوں تو آتے ہیں بہت لوگ تماشہ کیلئے
گھر جلتے ہیں تو کوئی کام آتا نہیں
پختگی درد سے ملتی ہے محباں کو ہمیشہ
محبت کو بنا اس کے دوام آتا نہیں
وقت آغاز سے ہے ہم کو یہ فکر
کچھ آسانی سے وقت اختتام آتا نہیں
حسن پر اپنے وہ نازاں بھی ہے لیکن
سامنے کبھی وہ میرے سر عام آتا نہیں
کچھ یوں پھیلی وحشت تنہائی گھر میں میرے
جھونکا ہوا کا یہاں کسی شام آتا نہیں
دوری سخن سے سہی نہ جائے گی عیاز
سوا اس کے ہمیں کچھ کام آتا نہیں Ahmad Faisal Ayaz
کچھ تو شعائر محبت کا احترام کیجئے کچھ تو شعائر محبت کا احترام کیجئے
شکوے محبت کے یوں نہ سر عام کیجئے
بس سنتے ہی رہہے افسانہ ہائے محبت
باقی قصوں کے سب قصے تمام کیجئے
بزم میں جو رہ جاتے ہیں تشنہ لب
نام ان کے اپنے حصے کے جام کیجئے
مرتبہ جو محبت میں قیس کو ملا ہے
دیا ہم کو بھی وہ مقام کیجئے
دامن میں ہوں آپکے خوشیاں ہر دم
غم آئے گر کوئی میرے نام کیجئے
خواہش ہے زندگی کی ہر صبح کی
محبوب کی گلیوں میں شام کیجئے
دیتے ہیں اصلاح یہ یاران عیاز
خوئے سخن چھوڑئے کوئی کام کیجئے Ahmad Faisal Ayaz
شکوے محبت کے یوں نہ سر عام کیجئے
بس سنتے ہی رہہے افسانہ ہائے محبت
باقی قصوں کے سب قصے تمام کیجئے
بزم میں جو رہ جاتے ہیں تشنہ لب
نام ان کے اپنے حصے کے جام کیجئے
مرتبہ جو محبت میں قیس کو ملا ہے
دیا ہم کو بھی وہ مقام کیجئے
دامن میں ہوں آپکے خوشیاں ہر دم
غم آئے گر کوئی میرے نام کیجئے
خواہش ہے زندگی کی ہر صبح کی
محبوب کی گلیوں میں شام کیجئے
دیتے ہیں اصلاح یہ یاران عیاز
خوئے سخن چھوڑئے کوئی کام کیجئے Ahmad Faisal Ayaz
وہ میں تھا جو دھڑکن میں تیری رہا تھا وہ میں تھا
جو سانسوں میں تیری بسا تھا وہ میں تھا
کل صبح جو اچانک ہوا کے شریر جھونکے سے
آنچل جو تیرا اڑا تھا وہ میں تھا
راستے میں بار بار جب دامن وہ تمہارا
جس کانٹے سے اٹکا تھا وہ میں تھا
دیکھتے تھے سب تیری سراب نما یہ آنکھیں
ان آنکھوں میں جو درد بھرا تھا وہ میں تھا
راہ میں ہماری پھیلا تے تھے جب اپنی بانہیں
کنگن جو تیرا کھنکتا تھا وہ میں تھا
راہ محبت میں ہم دم تیری پائل کے گیت سنتا تھا
تیرے قدموں میں جو رستہ تھا وہ میں تھا
چوما جو تعظیما دیوان عیاز کو تو نے
جو ہونٹوں سے تیرے لگا تھا وہ میں تھا Ahmad Faisal Ayaz
جو سانسوں میں تیری بسا تھا وہ میں تھا
کل صبح جو اچانک ہوا کے شریر جھونکے سے
آنچل جو تیرا اڑا تھا وہ میں تھا
راستے میں بار بار جب دامن وہ تمہارا
جس کانٹے سے اٹکا تھا وہ میں تھا
دیکھتے تھے سب تیری سراب نما یہ آنکھیں
ان آنکھوں میں جو درد بھرا تھا وہ میں تھا
راہ میں ہماری پھیلا تے تھے جب اپنی بانہیں
کنگن جو تیرا کھنکتا تھا وہ میں تھا
راہ محبت میں ہم دم تیری پائل کے گیت سنتا تھا
تیرے قدموں میں جو رستہ تھا وہ میں تھا
چوما جو تعظیما دیوان عیاز کو تو نے
جو ہونٹوں سے تیرے لگا تھا وہ میں تھا Ahmad Faisal Ayaz
اک پروانہ سربزم اک دیوانہ عیاز اب عہد و پیمان وفا باندھے جاتے ہیں
نام قاتل سے جو شہر میں جانے جاتے ہیں
اب کہ روٹھی ہیں بہاریں گلستاں سے میرے
خزاں سے ٹوٹے ہوئے پتے ہی گرانے جاتے ہیں
مزار محبت کی عمارت گری پڑی ہے
چلو کہ ہم ہی اٹھانے جاتے ہیں
مئے کدے میں ساقی کو نصیحت کرنے
واعظ مئے کے بہانے جاتے ہیں
مئے کدے میں مئے وہ کم پیتے ہیں
ہاں مگر اوروں کو پلانے جاتے ہیں
ہم چلاتے ہیں کبھی جو دور جام
ہر تشنہ لب تک پیمانے جاتے ہیں
اک پروانہ سر بزم اک دیوانہ عیاز
عشق و جنوں کے مجرم گردانے جاتے ہیں Ahmad Faisal Ayaz
نام قاتل سے جو شہر میں جانے جاتے ہیں
اب کہ روٹھی ہیں بہاریں گلستاں سے میرے
خزاں سے ٹوٹے ہوئے پتے ہی گرانے جاتے ہیں
مزار محبت کی عمارت گری پڑی ہے
چلو کہ ہم ہی اٹھانے جاتے ہیں
مئے کدے میں ساقی کو نصیحت کرنے
واعظ مئے کے بہانے جاتے ہیں
مئے کدے میں مئے وہ کم پیتے ہیں
ہاں مگر اوروں کو پلانے جاتے ہیں
ہم چلاتے ہیں کبھی جو دور جام
ہر تشنہ لب تک پیمانے جاتے ہیں
اک پروانہ سر بزم اک دیوانہ عیاز
عشق و جنوں کے مجرم گردانے جاتے ہیں Ahmad Faisal Ayaz
نام عیاز جو بحث میں آجائے تو اس طرح سے رنجشیں بڑھائی جاتی ہیں
نظریں ملا کر نظریں چرائی جاتی ہیں
کسی کے مرنے کی کسی کے اجڑنے کی
کہانیاں بڑے مزے سے سنائی جائی ہیں
قبریں سر زمیں ہی تو نہیں ہوتیں
چیزیں کچھ دل میں دفنائی جاتی ہیں
تم چلے جاؤ پھر یادوں کا کیا ہے
یادیں تو یوں ہی بہلائی جاتی ہیں
بڑے پردوں میں چھپی ہیں جو شکلیں
مئے کدے میں ہمارے دکھائی جاتی ہیں
اک الگ کام ہے داستاں سخن میں لکھنا
کہانی بن کر کہانیاں لکھائی جاتی ہیں
نام عیاز جو بحث میں آ جائے تو
ہزار قسمیں اس نام کی کھائی جاتی ہیں Ahmad Faisal Ayaz
نظریں ملا کر نظریں چرائی جاتی ہیں
کسی کے مرنے کی کسی کے اجڑنے کی
کہانیاں بڑے مزے سے سنائی جائی ہیں
قبریں سر زمیں ہی تو نہیں ہوتیں
چیزیں کچھ دل میں دفنائی جاتی ہیں
تم چلے جاؤ پھر یادوں کا کیا ہے
یادیں تو یوں ہی بہلائی جاتی ہیں
بڑے پردوں میں چھپی ہیں جو شکلیں
مئے کدے میں ہمارے دکھائی جاتی ہیں
اک الگ کام ہے داستاں سخن میں لکھنا
کہانی بن کر کہانیاں لکھائی جاتی ہیں
نام عیاز جو بحث میں آ جائے تو
ہزار قسمیں اس نام کی کھائی جاتی ہیں Ahmad Faisal Ayaz
دل کے چاک ہم نے سی لئے ہیں عیاز اٹھ کہ جشن بہاراں کا زمانہ ہی نہ ہو
ممکن ہے کہ پھر اپنا جانا ہی نہ ہو
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا بھری بزم میں ہمیں
شائد ہمیں انھوں نے پہچانا ہی نہ ہو
جھوٹے وعدے جھوٹی قسمیں جھوٹے دعوے جھوٹا پیار
ایماں والوں کو شائد ایماں بچانا ہی نہ ہو
یہ سوچ کر تیری آنکھ کہ سب اشک پی گئے
دربار حسن کی مئے کا پیمانہ ہی نہ ہو
ہر آزمائش سے پہلے پیار ثابت تھا اپناتو
وہ بولے آزمائیں کیوں گر آزمانا ہی نہ ہو
بازو پکڑ کر لئے جاتے ہیں قتل گاہ کو
اس دل فریب کا وہ کہیں ٹھکانا ہی نہ ہو
دل کے چاک ہم نے سی لئے ہیں عیاز
در کھولیں کیوں جب کسی کو آنا ہی نہ ہو Ahmad Faisal Ayaz
ممکن ہے کہ پھر اپنا جانا ہی نہ ہو
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا بھری بزم میں ہمیں
شائد ہمیں انھوں نے پہچانا ہی نہ ہو
جھوٹے وعدے جھوٹی قسمیں جھوٹے دعوے جھوٹا پیار
ایماں والوں کو شائد ایماں بچانا ہی نہ ہو
یہ سوچ کر تیری آنکھ کہ سب اشک پی گئے
دربار حسن کی مئے کا پیمانہ ہی نہ ہو
ہر آزمائش سے پہلے پیار ثابت تھا اپناتو
وہ بولے آزمائیں کیوں گر آزمانا ہی نہ ہو
بازو پکڑ کر لئے جاتے ہیں قتل گاہ کو
اس دل فریب کا وہ کہیں ٹھکانا ہی نہ ہو
دل کے چاک ہم نے سی لئے ہیں عیاز
در کھولیں کیوں جب کسی کو آنا ہی نہ ہو Ahmad Faisal Ayaz
پیار تماشہ نہیں ہے دل دھڑکنا ہے دل کا شعار تماشہ نہیں ہے
ان سے ہونا پڑے بر سر پیکار تماشہ نہیں ہے
خون قدرے کم قیمت ہے میرا سو تماشہ ہی سمجھ
ان کے ہاتھوں میں مگر تلوار تماشہ نہیں ہے
محبت سے ہماری وہ اتنا تو سیکھ گئے
چاہے کسی غریب کا ہو پیار تماشہ نہیں ہے
دل و جگر کے گھاؤ میرے پہچان گئے ہیں وہ
سچ بات ہے ان کا اصرار تماشہ نہیں ہے
دیکھ کے سخن عیاز میں کیا اسرار پوشیدہ ہیں
وہ دل جلا ہے مگر یہ گفتار تماشہ نہیں ہے Ahmad Faisal Ayaz
ان سے ہونا پڑے بر سر پیکار تماشہ نہیں ہے
خون قدرے کم قیمت ہے میرا سو تماشہ ہی سمجھ
ان کے ہاتھوں میں مگر تلوار تماشہ نہیں ہے
محبت سے ہماری وہ اتنا تو سیکھ گئے
چاہے کسی غریب کا ہو پیار تماشہ نہیں ہے
دل و جگر کے گھاؤ میرے پہچان گئے ہیں وہ
سچ بات ہے ان کا اصرار تماشہ نہیں ہے
دیکھ کے سخن عیاز میں کیا اسرار پوشیدہ ہیں
وہ دل جلا ہے مگر یہ گفتار تماشہ نہیں ہے Ahmad Faisal Ayaz
کیا جاتا ہے جو کبھی غم جہاں کا حساب جب بھی ہوتی ہے بس آہ و فغاں ہوتی ہے
دل میں جو کچھ کہنے کی حسرت جواں ہوتی ہے
بھری بزم میں تیری رسوائی گوارہ نہیں ہم کو
کہتے تو نہیں مگر کہنے کو زباںہوتی ہے
بستر مرض پر میرے اوڑھا ہے مسکراہٹ کا نقاب
ان کی افسردگی ان کے آنے سے بیاں ہوتی ہے
وقت رخصت دل وجگر کا ٹکڑا ساتھ بھیجو
ان کی چیز ہے بہلنے کا ساماں ہوتی ہے
ہو نہ ہو لوگ تو سمجھیں گے اسے جادو کا اثر
اک تصویر سی تیرے پہلو سے عیاں ہوتی ہے
یوں کسی گور شکستہ کو ٹھوکروں سے نہ مٹاؤ
دیکھا جاتا ہےکہ پتھر میں بھی جاں ہوتی ہے
کیا جاتا ہے جو کبھی غم جہاں کا حساب
بات چلتی ہے تو عیاز سے رواں ہوتی ہے Ahmad Faisal Ayaz
دل میں جو کچھ کہنے کی حسرت جواں ہوتی ہے
بھری بزم میں تیری رسوائی گوارہ نہیں ہم کو
کہتے تو نہیں مگر کہنے کو زباںہوتی ہے
بستر مرض پر میرے اوڑھا ہے مسکراہٹ کا نقاب
ان کی افسردگی ان کے آنے سے بیاں ہوتی ہے
وقت رخصت دل وجگر کا ٹکڑا ساتھ بھیجو
ان کی چیز ہے بہلنے کا ساماں ہوتی ہے
ہو نہ ہو لوگ تو سمجھیں گے اسے جادو کا اثر
اک تصویر سی تیرے پہلو سے عیاں ہوتی ہے
یوں کسی گور شکستہ کو ٹھوکروں سے نہ مٹاؤ
دیکھا جاتا ہےکہ پتھر میں بھی جاں ہوتی ہے
کیا جاتا ہے جو کبھی غم جہاں کا حساب
بات چلتی ہے تو عیاز سے رواں ہوتی ہے Ahmad Faisal Ayaz
خواب ادھورے ہیں میرے نظیر اس کی ملے کہاں کوئی اس کا نظیر ہو
لا محالہ نہ کرے جنبش جو زلف کا اسیر ہو
نامکمل ہے ابھی تصویر ادائے جاناں کی
رنگ نا پید ہے کہ جو نظر کا تیر ہو
صنم پرستوں پہ تو ہوئیں ہر جا ظلمتیں نازل
مئے کدہ ہو سینا ، فاراں ہو کہ شعیر ہو
کوئی ایساجو ہٹا ئے بے حسی کے پردے
کوئی ایسا ہو کہ جو صدائے ضمیر ہو
یہی وقت دعا ہے جو کھڑا ہے تیرے در پہ
ممکن ہے نہ لوٹ کے آئے خدار فقیر ہو
بھیجا ہے ان کو میں جذبہ وفا کا موتی
آنسو میرا تیری نظر میں ممکن ہے حقیر ہو
پہنچنا ہے فلک کے اس پار اے راہبر
خواب ادھورے ہیں میرے کاش کہ تعبیر ہو
کھنچے چلے آئو گے تم در عیاز پر
وصل ہمار منظور گر کاتب تقدیر ہو Ahmad Faisal Ayaz
لا محالہ نہ کرے جنبش جو زلف کا اسیر ہو
نامکمل ہے ابھی تصویر ادائے جاناں کی
رنگ نا پید ہے کہ جو نظر کا تیر ہو
صنم پرستوں پہ تو ہوئیں ہر جا ظلمتیں نازل
مئے کدہ ہو سینا ، فاراں ہو کہ شعیر ہو
کوئی ایساجو ہٹا ئے بے حسی کے پردے
کوئی ایسا ہو کہ جو صدائے ضمیر ہو
یہی وقت دعا ہے جو کھڑا ہے تیرے در پہ
ممکن ہے نہ لوٹ کے آئے خدار فقیر ہو
بھیجا ہے ان کو میں جذبہ وفا کا موتی
آنسو میرا تیری نظر میں ممکن ہے حقیر ہو
پہنچنا ہے فلک کے اس پار اے راہبر
خواب ادھورے ہیں میرے کاش کہ تعبیر ہو
کھنچے چلے آئو گے تم در عیاز پر
وصل ہمار منظور گر کاتب تقدیر ہو Ahmad Faisal Ayaz
کہتا ہے عشق والوں میں میرا نام آ گیا دیوانہ کوئی چند روز سے سر عام آگیا
کوئی نام دو اس کو کہ بے نام آ گیا
سینے پہ چند حرف کسی نا م کے گاڑ کر
کہتا ہے عشق والوں میں میرا نام آ گیا
آیا ہے اجڑا ہوا کچھ اس طرح سے
جیسے ساقی کا ٹوٹا ہوا جام آگیا
دیکھ کر اسکو جو خود کو دیکھا
یاد درد گذشتہ تمام آگیا
مدت بعد رخ ہے روبرو مئے خانہ
اچھا ہوا ساقی کا پیغام آگیا
چیر دیتی ہے اب بھی ایک نگاہ دل کو
کیسے کہہ دوں کہ دل کو آرام آگیا
مٹ سکتا ہی نہیں کسی طرح سے
دل عیاز پر اگر کوئی نا م آگیا Ahmad Faisal Ayaz
کوئی نام دو اس کو کہ بے نام آ گیا
سینے پہ چند حرف کسی نا م کے گاڑ کر
کہتا ہے عشق والوں میں میرا نام آ گیا
آیا ہے اجڑا ہوا کچھ اس طرح سے
جیسے ساقی کا ٹوٹا ہوا جام آگیا
دیکھ کر اسکو جو خود کو دیکھا
یاد درد گذشتہ تمام آگیا
مدت بعد رخ ہے روبرو مئے خانہ
اچھا ہوا ساقی کا پیغام آگیا
چیر دیتی ہے اب بھی ایک نگاہ دل کو
کیسے کہہ دوں کہ دل کو آرام آگیا
مٹ سکتا ہی نہیں کسی طرح سے
دل عیاز پر اگر کوئی نا م آگیا Ahmad Faisal Ayaz
پھر شجر نے ہے پتہ گرایا کوئی نوید سحر سی خبر لایا کوئی
کوئے یار سے ہے شائد آیا کوئی
یاد ہے تیرا ملامت کرنا
بعد اس کے نہ مسکرایا کوئی
سرخ آسماں کو دیکھا تو خیال آیا
کسی یا د کا بہت ہے ستایا کوئی
میری پیاس رہی صبر کا امتحاں
اک قطرہ نہ خدا نے برسایا کوئی
آج چلا ہے پھر کوئی اس دنیا سے
پھر شجر نے ہے پتہ گرایا کوئی
یاد کروں جو ان آنکھوں کی چمک
ستارہ سا دل میں جگمگایا کوئی
آبادیاں بھی دیکھو ویرانیاں ہیں
دل عیاز میں شہر ہے بسایا کوئی Ahmad Faisal AYaz
کوئے یار سے ہے شائد آیا کوئی
یاد ہے تیرا ملامت کرنا
بعد اس کے نہ مسکرایا کوئی
سرخ آسماں کو دیکھا تو خیال آیا
کسی یا د کا بہت ہے ستایا کوئی
میری پیاس رہی صبر کا امتحاں
اک قطرہ نہ خدا نے برسایا کوئی
آج چلا ہے پھر کوئی اس دنیا سے
پھر شجر نے ہے پتہ گرایا کوئی
یاد کروں جو ان آنکھوں کی چمک
ستارہ سا دل میں جگمگایا کوئی
آبادیاں بھی دیکھو ویرانیاں ہیں
دل عیاز میں شہر ہے بسایا کوئی Ahmad Faisal AYaz
چلو عہد وفا باندھیں کہ لوگ کہتے ہیں گلشن میں گلوں کا کوئی سہارا نہ رہا
دل اشک بہاتا تھا بے چارہ نہ رہا
اتنا پیار کیا تجھ سے اے جان وفا
کہ دنیا میں کوئی تجھ سا پیارا نہ رہا
ختم ہو یہ زمانہ انقلاب اب کہ
اس شوخ لباس کے تن پر شرارہ نہ رہا
دل دھڑکا ہے بعد مدت کے
لگتا ہے اب یہ ہمارا نہ رہا
کوچ ہے اپنا اب مئے کدے کی جانب
کہ مئے بن اب اپنا گزارہ نہ رہا
چلو عہد وفا باندھیں کہ لوگ کہتے ہیں
عیاز کو محبت کا یارا نہ رہا Ahmad Faisal Ayaz
دل اشک بہاتا تھا بے چارہ نہ رہا
اتنا پیار کیا تجھ سے اے جان وفا
کہ دنیا میں کوئی تجھ سا پیارا نہ رہا
ختم ہو یہ زمانہ انقلاب اب کہ
اس شوخ لباس کے تن پر شرارہ نہ رہا
دل دھڑکا ہے بعد مدت کے
لگتا ہے اب یہ ہمارا نہ رہا
کوچ ہے اپنا اب مئے کدے کی جانب
کہ مئے بن اب اپنا گزارہ نہ رہا
چلو عہد وفا باندھیں کہ لوگ کہتے ہیں
عیاز کو محبت کا یارا نہ رہا Ahmad Faisal Ayaz