Poetries by dr zahid sheikh
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو ۔۔۔دوگانا لڑکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
اداسی چھائی ہے جینا نہیں میرے لیے آساں
بچھڑ کے تم سے میرے دل کی دنیا ہے بہت ویراں
میں شب بھر گھومتا رہتا ہوں سڑکوں پہ یونہی تنہا
خوشی کے گیت روٹھے بجھ گئے ہیں میرے سب ارماں
سریلی بانسری بھی آج بہلاتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تصور میں مرے آتے ہو آ کے دل جلاتے ہو
بتا دو دور رہ کے کیوں مجھے تم آزماتے ہو
کھلے ہیں پھول ہر جانب ،بہاریں گیت گاتی ہیں
جدا رہ کے حسیں موسم میں کیوں مجھ کو ستاتے ہو
منا لے جو تمھیں ایسی ادا آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو Dr.Zahid Sheikh
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
اداسی چھائی ہے جینا نہیں میرے لیے آساں
بچھڑ کے تم سے میرے دل کی دنیا ہے بہت ویراں
میں شب بھر گھومتا رہتا ہوں سڑکوں پہ یونہی تنہا
خوشی کے گیت روٹھے بجھ گئے ہیں میرے سب ارماں
سریلی بانسری بھی آج بہلاتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تصور میں مرے آتے ہو آ کے دل جلاتے ہو
بتا دو دور رہ کے کیوں مجھے تم آزماتے ہو
کھلے ہیں پھول ہر جانب ،بہاریں گیت گاتی ہیں
جدا رہ کے حسیں موسم میں کیوں مجھ کو ستاتے ہو
منا لے جو تمھیں ایسی ادا آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو Dr.Zahid Sheikh
کیوں وقت نے اس قدر رلایا ہمیں تو اشکوں نے یہ سکھایا
ہر ایک اپنا بھی ہے پرایا
رہا ہے مشکل اگرچہ جینا
مگر کبھی سر نہیں جھکایا
عجیب دن ہیں،عجیب راتیں
ہے ساتھ کوئی تو اپنا سایہ
تلاش میں ایک بے وفا کی
گنوا دیا وہ بھی جو تھا پایا
ملا ہی کیا بیٹھے سوچتے ہیں
نہ پیار پایا ،نہ زر کمایا
قصور کیا تھا کوئی بتائے
کیوں وقت نے اس قدر رلایا
ہاں یاد آتا ہے آج بھی وہ
گیا تو پھر لوٹ کر نہ آیا
وہ نوحہ بن کے رلا رہا ہے
جو گیت تیرے لیے تھا گایا
Dr.Zahid Sheikh
ہر ایک اپنا بھی ہے پرایا
رہا ہے مشکل اگرچہ جینا
مگر کبھی سر نہیں جھکایا
عجیب دن ہیں،عجیب راتیں
ہے ساتھ کوئی تو اپنا سایہ
تلاش میں ایک بے وفا کی
گنوا دیا وہ بھی جو تھا پایا
ملا ہی کیا بیٹھے سوچتے ہیں
نہ پیار پایا ،نہ زر کمایا
قصور کیا تھا کوئی بتائے
کیوں وقت نے اس قدر رلایا
ہاں یاد آتا ہے آج بھی وہ
گیا تو پھر لوٹ کر نہ آیا
وہ نوحہ بن کے رلا رہا ہے
جو گیت تیرے لیے تھا گایا
Dr.Zahid Sheikh
اے کاش ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح ہر ایک سو وہی منظر دکھائی دیتا ہے
ہر ایک چیز میں دلبر دکھائی دیتا ہے
وہ مجھ سے دور سہی پر دکھائی دیتا ہے
کہ میرے خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
تو کاش دیکھ لے ظاہر سے ہٹ کے بھی جو کہیں
مرے وجود کے اندر دکھائی دیتا ہے
ملا ہے دیر کے بعد پھر وہی گلے شکوے
شکائیتوں کا تو دفتر دکھائی دیتا ہے
مزاج میں کہیں آوارگی نہ آ جائے
آ میرے پاس تو بے گھر دکھائی دیتا ہے
تری آغوش بھی دکھ میرا کم نہ کر پائی
وطن کا حال جو ابتر دکھائی دیتا ہے
فریب کھا کے محبت کا شہر چھوڑ گیا
وہ اب ویرانوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
ملی نہ اس کو پزیرائی اس زمانے میں
جو شخص فن کا سمندر دکھائی دیتا ہے
تو اپنے ظاہر و باطن کو ایک کر ملا
سبق تو خیر کا خود شر دکھائی دیتا ہے
اے کاش ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح
کہ ان کا جھگڑا تو گھر گھر دکھائی دیتا ہے
کہیں تو بیوی کنیزوں سی نظر آتی ہے
کہیں غلام بھی شوہر دکھائی دیتا ہے
بڑھاپا آیا تو زوجہ کے ہاتھوں ناک میں دم
جوان بیٹا بھی خود سر دکھائی دیتا ہے
ہوا تھا بردہ فروشوں کے ہاتھوں جو اغوا
وہ بھیک مانگتا در در دکھائی دیتا ہے
ہیں دام کم تو بھی وارا نہیں یہ مال مجھے
معیار میں بھی تو کم تر دکھائی دیتا ہے
بنا وہ عشق الہٰی نماز میں ہے کھڑا
جو مے سے خالی ہو ساغر دکھائی دیتا ہے
جو دیکھتا ہوں میں باطن کی آنکھ سے زاہد
وہ مجھ کو آنکھوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے Dr.Zahid Sheikh
ہر ایک چیز میں دلبر دکھائی دیتا ہے
وہ مجھ سے دور سہی پر دکھائی دیتا ہے
کہ میرے خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
تو کاش دیکھ لے ظاہر سے ہٹ کے بھی جو کہیں
مرے وجود کے اندر دکھائی دیتا ہے
ملا ہے دیر کے بعد پھر وہی گلے شکوے
شکائیتوں کا تو دفتر دکھائی دیتا ہے
مزاج میں کہیں آوارگی نہ آ جائے
آ میرے پاس تو بے گھر دکھائی دیتا ہے
تری آغوش بھی دکھ میرا کم نہ کر پائی
وطن کا حال جو ابتر دکھائی دیتا ہے
فریب کھا کے محبت کا شہر چھوڑ گیا
وہ اب ویرانوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
ملی نہ اس کو پزیرائی اس زمانے میں
جو شخص فن کا سمندر دکھائی دیتا ہے
تو اپنے ظاہر و باطن کو ایک کر ملا
سبق تو خیر کا خود شر دکھائی دیتا ہے
اے کاش ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح
کہ ان کا جھگڑا تو گھر گھر دکھائی دیتا ہے
کہیں تو بیوی کنیزوں سی نظر آتی ہے
کہیں غلام بھی شوہر دکھائی دیتا ہے
بڑھاپا آیا تو زوجہ کے ہاتھوں ناک میں دم
جوان بیٹا بھی خود سر دکھائی دیتا ہے
ہوا تھا بردہ فروشوں کے ہاتھوں جو اغوا
وہ بھیک مانگتا در در دکھائی دیتا ہے
ہیں دام کم تو بھی وارا نہیں یہ مال مجھے
معیار میں بھی تو کم تر دکھائی دیتا ہے
بنا وہ عشق الہٰی نماز میں ہے کھڑا
جو مے سے خالی ہو ساغر دکھائی دیتا ہے
جو دیکھتا ہوں میں باطن کی آنکھ سے زاہد
وہ مجھ کو آنکھوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے Dr.Zahid Sheikh
شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
زندگی ایک نئے موڑ پہ آ ٹھہری ہے
لوٹ کر پھر انہی راہوں پہ جا نہیں سکتا
اب امنگوں کے گلابوں کا نہیں ہے موسم
اب محبت بھرے نغمات گا نہیں سکتا
آج مایوسی مری حد سے بڑھی جاتی ہے
آج اپنے لیے کچھ بھی تو پا نہیں سکتا
موت ہے سامنے اور سانس رکی جاتی ہے
زندگی جا تجھے واپس میں لا نہیں سکتا
درد سہہ سہہ کے خود اک درد بنا جاتا ہے
اب مسیحا سے بھی دل بس میں آ نہیں سکتا
شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
نوٹ:- چند سال ہوئے دل کے آپریشن سے کچھ دیر پہلے
اسپتال میں یہ غزل کہی تھی جسے اب ساتھیوں کی
نذر کرتا ہوں۔۔۔ Dr.Zahid Sheikh
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
زندگی ایک نئے موڑ پہ آ ٹھہری ہے
لوٹ کر پھر انہی راہوں پہ جا نہیں سکتا
اب امنگوں کے گلابوں کا نہیں ہے موسم
اب محبت بھرے نغمات گا نہیں سکتا
آج مایوسی مری حد سے بڑھی جاتی ہے
آج اپنے لیے کچھ بھی تو پا نہیں سکتا
موت ہے سامنے اور سانس رکی جاتی ہے
زندگی جا تجھے واپس میں لا نہیں سکتا
درد سہہ سہہ کے خود اک درد بنا جاتا ہے
اب مسیحا سے بھی دل بس میں آ نہیں سکتا
شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
نوٹ:- چند سال ہوئے دل کے آپریشن سے کچھ دیر پہلے
اسپتال میں یہ غزل کہی تھی جسے اب ساتھیوں کی
نذر کرتا ہوں۔۔۔ Dr.Zahid Sheikh
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم۔۔ گیت یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
چمن میں فصل کانٹوں کی کبھی بونے نہ دیں گے ہم
یہ وعدہ ہے نبھائیں گے وفا کی ریت کو جانم
تمھیں بانہوں میں لے کر پیار دیں گے ہر گھڑی،ہر دم
کسی بھی بات پر تم کو کبھی رونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
سفر میں چور ہو کر ہم کبھی واپس نہ آئیں گے
پکڑ کر ہاتھ منزل کی طرف بڑھتے ہی جائیں گے
تمھیں گرد سفر میں پل کو بھی کھونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
ملن کی رات قسمت پاس لائے گی تمھیں جاناں
رہے گی بے قراری صبح ہونے تک ہمیں جاناں
یہ سوچاہے تمھیں بھی رات بھر سونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
چمن میں فصل کانٹوں کی کبھی بونے نہ دیں گے ہم Dr.Zahid Sheikh
چمن میں فصل کانٹوں کی کبھی بونے نہ دیں گے ہم
یہ وعدہ ہے نبھائیں گے وفا کی ریت کو جانم
تمھیں بانہوں میں لے کر پیار دیں گے ہر گھڑی،ہر دم
کسی بھی بات پر تم کو کبھی رونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
سفر میں چور ہو کر ہم کبھی واپس نہ آئیں گے
پکڑ کر ہاتھ منزل کی طرف بڑھتے ہی جائیں گے
تمھیں گرد سفر میں پل کو بھی کھونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
ملن کی رات قسمت پاس لائے گی تمھیں جاناں
رہے گی بے قراری صبح ہونے تک ہمیں جاناں
یہ سوچاہے تمھیں بھی رات بھر سونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
یہ طے ہے اپنی چاہت پہ ستم ہونے نہ دیں گے ہم
چمن میں فصل کانٹوں کی کبھی بونے نہ دیں گے ہم Dr.Zahid Sheikh
اب زیست مجھ کو تھوڑی سی آسان چاہیے تھوڑا خلوص ،تھوڑا سا احسان چاہیے
مجھ کو تو ایک ساتھی مہربان چاہیے
جذبوں کا اک الاؤ دہکتا رہے سدا
دل کی خوشی کے واسطے سامان چاہیے
دشوار راستے بھی سہل ہو ہی جائیں گے
چلتے چلو کہ چلنے کا ارمان چاہیے
مشکل تھی مشکلوں سے گزاری ہے آج تک
اب زیست مجھ کو تھوڑی سی آسان چاہیے
دکھ سکھ میں میرا ساتھ نبھاؤ گے عمر بھر
اتنا تو مجھ کو پیار میں پیمان چاہیے
ویراں ہے میرا گھر مرے دل کی طرح بہت
اس میں ذرا سی دیر کو مہمان چاہیے
ہر غم کو جو بھلا دے فقط ایک ہی پل میں
ایسی تمھارے ہونٹوں پہ مسکان چاہیے Dr.Zahid Sheikh
مجھ کو تو ایک ساتھی مہربان چاہیے
جذبوں کا اک الاؤ دہکتا رہے سدا
دل کی خوشی کے واسطے سامان چاہیے
دشوار راستے بھی سہل ہو ہی جائیں گے
چلتے چلو کہ چلنے کا ارمان چاہیے
مشکل تھی مشکلوں سے گزاری ہے آج تک
اب زیست مجھ کو تھوڑی سی آسان چاہیے
دکھ سکھ میں میرا ساتھ نبھاؤ گے عمر بھر
اتنا تو مجھ کو پیار میں پیمان چاہیے
ویراں ہے میرا گھر مرے دل کی طرح بہت
اس میں ذرا سی دیر کو مہمان چاہیے
ہر غم کو جو بھلا دے فقط ایک ہی پل میں
ایسی تمھارے ہونٹوں پہ مسکان چاہیے Dr.Zahid Sheikh
دیکھتا ہوں میں گلابوں کو بڑی الفت سے تم ہو میرے لیے پیچیدہ سوالوں کی طرح
کاش آ جاؤ نظر دن کے اجالوں کی طرح
عشق میں ہوتی ہے رسوائی چلو مان لیا
میرا ہی ذکر مگر کیوں ہے مثالوں کی طرح
کیسے کاٹوں میں ترے ہجر کے لمحات بتا
ایک لمحہ بھی گزرتا ہے تو سالوں کی طرح
تجھ پہ چھینٹے نہ پڑیں عشق میں رسوائی کے
تیری عزت کو بچاؤں گا میں ڈھالوں کی طرح
دیکھتا ہوں میں گلابوں کو بڑی الفت سے
مجھ کو آتے ہیں نظر یہ ترے گالوں کی طرح
تیری آنکھوں کو مثالوں سے بیاں کر نہ سکوں
یہ بھی ناکافی ہے کہہ دوں ہیں غزالوں کی طرح
لوگ ریشم کو ملائم و حسیں کہتے ہیں
وہ کہاں تیرے حسیں ریشمی بالوں کی طرح
کیسے چھوڑں میں ترا ہاتھ پکڑ کر جاناں !
میں نے چاہا ہے تجھے چاہنے والوں کی طرح
وہ جو چاہے تو کھلیں، اور نہ چاہے نہ کھلیں
اس نے سمجھا ہے کہ لب ہیں مرے تالوں کی طرح
اک وجد کی ہے کیفیت کہ بنا سازو آواز
رقص اس مست کا ہوتا ہے دھمالوں کی طرح
عشق کرنے میں برائی تو نہیں ہے لیکن
اس میں ہوتی ہے دکھن پاؤں کے چھالوں کی طرح
دور سے آتی ہیں کوئل کی صدائیں زاہد
ان میں ہے درد کا نغمہ مرے نالوں کی طرح ڈاکٹر زاہد شیخ
کاش آ جاؤ نظر دن کے اجالوں کی طرح
عشق میں ہوتی ہے رسوائی چلو مان لیا
میرا ہی ذکر مگر کیوں ہے مثالوں کی طرح
کیسے کاٹوں میں ترے ہجر کے لمحات بتا
ایک لمحہ بھی گزرتا ہے تو سالوں کی طرح
تجھ پہ چھینٹے نہ پڑیں عشق میں رسوائی کے
تیری عزت کو بچاؤں گا میں ڈھالوں کی طرح
دیکھتا ہوں میں گلابوں کو بڑی الفت سے
مجھ کو آتے ہیں نظر یہ ترے گالوں کی طرح
تیری آنکھوں کو مثالوں سے بیاں کر نہ سکوں
یہ بھی ناکافی ہے کہہ دوں ہیں غزالوں کی طرح
لوگ ریشم کو ملائم و حسیں کہتے ہیں
وہ کہاں تیرے حسیں ریشمی بالوں کی طرح
کیسے چھوڑں میں ترا ہاتھ پکڑ کر جاناں !
میں نے چاہا ہے تجھے چاہنے والوں کی طرح
وہ جو چاہے تو کھلیں، اور نہ چاہے نہ کھلیں
اس نے سمجھا ہے کہ لب ہیں مرے تالوں کی طرح
اک وجد کی ہے کیفیت کہ بنا سازو آواز
رقص اس مست کا ہوتا ہے دھمالوں کی طرح
عشق کرنے میں برائی تو نہیں ہے لیکن
اس میں ہوتی ہے دکھن پاؤں کے چھالوں کی طرح
دور سے آتی ہیں کوئل کی صدائیں زاہد
ان میں ہے درد کا نغمہ مرے نالوں کی طرح ڈاکٹر زاہد شیخ
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے تماشا ساری دنیا میں بنا دو گی مری محبوب
تمھیں چاہا ہے تو اس کی سزا دو گی مری محبوب
کبھی تقدیر سے کچھ بھی نہیں مانگا قسم لے لو
اگر تم سے میں کچھ مانگوں تو کیا دو گی مری محبوب
لگی دل کی بجھانے میں اتر جاؤں گا دریا میں
مگر اک آگ اس میں بھی لگا دو گی مری محبوب
یہی سب سوچ کر اظہار الفت کر نہیں پاتا
مجھے ناگاہ نظروں سے گرا دو گی مری محبوب
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے
ذرا سا رخ سے کیا پردہ ہٹا دو گی مری محبوب
چلی جاؤ گی کل پردیس پھر کیسی ملاقاتیں
مری ہستی،مری باتیں بھلا دو گی مری محبوب
بس اتنا سا بتا دو گر لگی ٹھوکر تو اس لمحے
تڑپ کر مجھکو دھیمی سی صدا دو گی مری محبوب
تمھاری بے رخی کب تک سہوں میں یہ ذرا سوچو
جواں جذبوں کے سب شعلے بجھا دو گی مری محبوب
امنگوں کو جگا رکھا ہے میں نے آج بھی ، دیکھو
انھیں پر سرد مہری سے سلا دو گی مری محبوب
یہ خوش فہمی رہی طوفان ہستی میں مجھے اکثر
کنارے اپنی پلکوں کے بچھا دو گی مری محبوب Dr.Zahid Sheikh
تمھیں چاہا ہے تو اس کی سزا دو گی مری محبوب
کبھی تقدیر سے کچھ بھی نہیں مانگا قسم لے لو
اگر تم سے میں کچھ مانگوں تو کیا دو گی مری محبوب
لگی دل کی بجھانے میں اتر جاؤں گا دریا میں
مگر اک آگ اس میں بھی لگا دو گی مری محبوب
یہی سب سوچ کر اظہار الفت کر نہیں پاتا
مجھے ناگاہ نظروں سے گرا دو گی مری محبوب
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے
ذرا سا رخ سے کیا پردہ ہٹا دو گی مری محبوب
چلی جاؤ گی کل پردیس پھر کیسی ملاقاتیں
مری ہستی،مری باتیں بھلا دو گی مری محبوب
بس اتنا سا بتا دو گر لگی ٹھوکر تو اس لمحے
تڑپ کر مجھکو دھیمی سی صدا دو گی مری محبوب
تمھاری بے رخی کب تک سہوں میں یہ ذرا سوچو
جواں جذبوں کے سب شعلے بجھا دو گی مری محبوب
امنگوں کو جگا رکھا ہے میں نے آج بھی ، دیکھو
انھیں پر سرد مہری سے سلا دو گی مری محبوب
یہ خوش فہمی رہی طوفان ہستی میں مجھے اکثر
کنارے اپنی پلکوں کے بچھا دو گی مری محبوب Dr.Zahid Sheikh
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی ۔۔ گیت غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
ہے پیار اس کا حقیقت یہ مانتا ہوں میں
اسے قرار نہیں یہ بھی جانتا ہوں میں
وہ میرے پیار میں ہر چیز کھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
رہے گا اس کو مرا انتظار صبح تلک
کرے گی بند نہ شب بھر وہ ایک لمحہ پلک
تھکی تھکی سی مگر دن کو سو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
نئی وفا، نئی الفت میں کھو نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو کبھی اس کا ہو نہیں سکتا
وہ پھر بھی پیار کے موتی پرو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
یہ وقت چپکے ہی چپکے گزرتا جائے گا
مگر یہ راز کوئی بھی نہ جان پائے گا
کہ پیار میں کبھی برباد وہ رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں سو رہی ہو گی
غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی Dr.Zahid Sheikh
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
ہے پیار اس کا حقیقت یہ مانتا ہوں میں
اسے قرار نہیں یہ بھی جانتا ہوں میں
وہ میرے پیار میں ہر چیز کھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
رہے گا اس کو مرا انتظار صبح تلک
کرے گی بند نہ شب بھر وہ ایک لمحہ پلک
تھکی تھکی سی مگر دن کو سو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
نئی وفا، نئی الفت میں کھو نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو کبھی اس کا ہو نہیں سکتا
وہ پھر بھی پیار کے موتی پرو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
یہ وقت چپکے ہی چپکے گزرتا جائے گا
مگر یہ راز کوئی بھی نہ جان پائے گا
کہ پیار میں کبھی برباد وہ رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں سو رہی ہو گی
غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی Dr.Zahid Sheikh
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا(یوم آزادی کا گیت) یہ میری پیاری ماں دھرتی میں اس سے پیار نبھاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
دیکھی میں نے ساری دنیا پر ایسا کوئی اور نہیں
ایسے منظر ،ایسے موسم نہ پائے میں نے اور کہیں
اے میرے وطن ! تیرے چہرے کو اور حسیں بناؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
اس کی عزت میری عزت اس کی دولت میری دولت
یہ ملک تو رب تعالیٰ کی دیکھو کیسی ہے مجھ پہ رحمت
گر وقت پڑا تو اس کی خاطر اپنی جان لٹاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
اس کے قصبوں ، اس کے شہروں میں میں نے سب کچھ پایا ہے
اس ملک کی الفت میں یارو! ہر دور میں نغمہ گایا ہے
یہ وعدہ ہے اس کی مٹی سے دور کہیں نہ جاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
یہ میری پیاری ماں دھرتی میں اس سے پیار نبھاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا Dr.Zahid Sheikh
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
دیکھی میں نے ساری دنیا پر ایسا کوئی اور نہیں
ایسے منظر ،ایسے موسم نہ پائے میں نے اور کہیں
اے میرے وطن ! تیرے چہرے کو اور حسیں بناؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
اس کی عزت میری عزت اس کی دولت میری دولت
یہ ملک تو رب تعالیٰ کی دیکھو کیسی ہے مجھ پہ رحمت
گر وقت پڑا تو اس کی خاطر اپنی جان لٹاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
اس کے قصبوں ، اس کے شہروں میں میں نے سب کچھ پایا ہے
اس ملک کی الفت میں یارو! ہر دور میں نغمہ گایا ہے
یہ وعدہ ہے اس کی مٹی سے دور کہیں نہ جاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا
یہ میری پیاری ماں دھرتی میں اس سے پیار نبھاؤں گا
اس ملک کا رہنے والا ہوں اس ملک کے نغمے گاؤں گا Dr.Zahid Sheikh
دلیر فوجی جوانوں کا احترام کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج کے لیے گیت دلیر فوجی جوانوں کا احترام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
ہیں شیر دل کبھی دشمن سے خوف کھاتے نہیں
محازٍ جنگ سے ناکام ہو کے آتے نہیں
وفائیں اپنی چلو آج ان کے نام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
گھروں سے دور بڑی مشکلیں یہ سہتے ہیں
وطن کی آن کی خاطر تیار رہتے ہیں
تو کیوں نہ ان سے محبت سبھی عوام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
خدا کی اور نبی پاک کی رضا کے لیے
شہید ہوتے ہیں اسلام کی بقا کے لیے
جہاں میں ان کی شہادت کا ذکر عام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
دلیر فوجی جوانوں کا احترام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
(نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) Dr.Zahid Sheikh
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
ہیں شیر دل کبھی دشمن سے خوف کھاتے نہیں
محازٍ جنگ سے ناکام ہو کے آتے نہیں
وفائیں اپنی چلو آج ان کے نام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
گھروں سے دور بڑی مشکلیں یہ سہتے ہیں
وطن کی آن کی خاطر تیار رہتے ہیں
تو کیوں نہ ان سے محبت سبھی عوام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
خدا کی اور نبی پاک کی رضا کے لیے
شہید ہوتے ہیں اسلام کی بقا کے لیے
جہاں میں ان کی شہادت کا ذکر عام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
دلیر فوجی جوانوں کا احترام کریں
ہم ان کے حوصلوں اور عزم کو سلام کریں
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
(نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) Dr.Zahid Sheikh
سنائی دے رہی ہیں جانٍ جاں سرگوشیاں دل کی۔ ۔ ۔ گیت سنائی دے رہی ہیں جانٍ جاں سرگوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
رہے خاموش تم اور ہم نے بھی یہ لب نہیں کھولے
وفاؤں کو چھپاتے ہی رہے منہ سے نہ کچھ بولے
زباں پانے لگیں پر آج سب خاموشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
تمھارے بن زمانے میں ہمیں کچھ بھی نہ بھاتا ہے
تمھارے حسن کی مستی میں یہ دل ڈوب جاتا ہے
نئی اک زندگی دینے لگیں بے ہوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
تمھارے پیار میں کھو کر عجب سی بے خودی پائی
غموں کو بھول کر سچی محبت کی خوشی پائی
نجانے رنگ کیا لائیں گی اب مے نوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
سنائی دے رہی ہیں جانٍ جاں سرگوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی Dr.Zahid Sheikh
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
رہے خاموش تم اور ہم نے بھی یہ لب نہیں کھولے
وفاؤں کو چھپاتے ہی رہے منہ سے نہ کچھ بولے
زباں پانے لگیں پر آج سب خاموشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
تمھارے بن زمانے میں ہمیں کچھ بھی نہ بھاتا ہے
تمھارے حسن کی مستی میں یہ دل ڈوب جاتا ہے
نئی اک زندگی دینے لگیں بے ہوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
تمھارے پیار میں کھو کر عجب سی بے خودی پائی
غموں کو بھول کر سچی محبت کی خوشی پائی
نجانے رنگ کیا لائیں گی اب مے نوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی
سنائی دے رہی ہیں جانٍ جاں سرگوشیاں دل کی
چھپا پاؤ گی نہ ہم سے کبھی مدہوشیاں دل کی Dr.Zahid Sheikh
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے ۔گیت غریبوں سے ،یتیموں سے محبت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
جہاں بھر کے دکھوں کو آؤ ہم مل کر مٹا ڈالیں
محبت بانٹ دیں دنیا میں روتوں کو ہنسا ڈالیں
ہمیں ظلم و ستم سے دوست ! نفرت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
غزہ میں ہر فلسطینی پہ یاروں زندگی تنگ ہے
یہودی نے مسلمانوں سے پھر اب چھیڑ دی جنگ ہے
درندوں کی سفاکی سے بغاوت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
زمیں کو اپنے ہاتھوں سے ہی دوزخ کیوں بنا ڈالا
سہانے موسموں اور منظروں کو کیوں مٹا ڈالا
تباہی دیکھ کر جنگوں کی عبرت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
غریبوں سے،یتیموں سے محبت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے Dr.Zahid Sheikh
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
جہاں بھر کے دکھوں کو آؤ ہم مل کر مٹا ڈالیں
محبت بانٹ دیں دنیا میں روتوں کو ہنسا ڈالیں
ہمیں ظلم و ستم سے دوست ! نفرت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
غزہ میں ہر فلسطینی پہ یاروں زندگی تنگ ہے
یہودی نے مسلمانوں سے پھر اب چھیڑ دی جنگ ہے
درندوں کی سفاکی سے بغاوت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
زمیں کو اپنے ہاتھوں سے ہی دوزخ کیوں بنا ڈالا
سہانے موسموں اور منظروں کو کیوں مٹا ڈالا
تباہی دیکھ کر جنگوں کی عبرت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے
غریبوں سے،یتیموں سے محبت ہو تو اچھا ہے
سبھی مظلوم انسانوں سے الفت ہو تو اچھا ہے Dr.Zahid Sheikh
عید کے دن بھی بہت دور ہیں ہم کیسے ملیں عید کے دن بھی بہت دور ہیں ہم کیسے ملیں
پھول خوشیوں کے جدائی میں بھلا کیسے کھلیں
چوڑیاں ہاتھوں میں پہناؤں یہی حسرت ہے
کتنی مجبور جدائی میں مری الفت ہے
تیرے ہاتھوں پہ حنا کتنی مہکتی ہو گی
پیار کی آگ بھی سینے میں دہکتی ہو گی
پر زمانے کی نگاہوں کے کڑے پہرے ہیں
آج بھی اپنی محبت پہ بڑے پہرے ہیں
میری محبوب ! جو آنکھوں کو تری دید نہیں
عید کے دن بھی تمناؤں کی تو عید نہیں
صبح کی طرح مری شام بھی ویراں ہو گی
دل بجھا ہو گا تو مشکل میں مری جاں ہو گی
تیرے بن عید کا یہ دن بھی مجھے راس نہیں
کس طرح چین ملے آج بھی تو پاس نہیں
یوں تو رنگوں کی ، گلابوں کی ہے ہر سمت بہار
پر ذرا سا بھی نہیں آج مرے دل کو قرار
اپنے کمرے میں اکیلا ہوں ،تری یادیں ہیں
پھر خیالوں میں تری پیار بھری باتیں ہیں
سوچتا ہوں کہ یہ تہوار مناؤں کیسے
ہو کے تیار کہیں گھر سے میں جاؤں کیسے
کوئی پیغام ہی مل جائے ترا پیار بھرا
فون پر آج کے دن بات ہی تو کر لے ذرا
تیری آواز سے کچھ دل کو سکوں آئے گا
عید کا دن تو کسی طور گزر جائے گا Dr.Zahid Sheikh
پھول خوشیوں کے جدائی میں بھلا کیسے کھلیں
چوڑیاں ہاتھوں میں پہناؤں یہی حسرت ہے
کتنی مجبور جدائی میں مری الفت ہے
تیرے ہاتھوں پہ حنا کتنی مہکتی ہو گی
پیار کی آگ بھی سینے میں دہکتی ہو گی
پر زمانے کی نگاہوں کے کڑے پہرے ہیں
آج بھی اپنی محبت پہ بڑے پہرے ہیں
میری محبوب ! جو آنکھوں کو تری دید نہیں
عید کے دن بھی تمناؤں کی تو عید نہیں
صبح کی طرح مری شام بھی ویراں ہو گی
دل بجھا ہو گا تو مشکل میں مری جاں ہو گی
تیرے بن عید کا یہ دن بھی مجھے راس نہیں
کس طرح چین ملے آج بھی تو پاس نہیں
یوں تو رنگوں کی ، گلابوں کی ہے ہر سمت بہار
پر ذرا سا بھی نہیں آج مرے دل کو قرار
اپنے کمرے میں اکیلا ہوں ،تری یادیں ہیں
پھر خیالوں میں تری پیار بھری باتیں ہیں
سوچتا ہوں کہ یہ تہوار مناؤں کیسے
ہو کے تیار کہیں گھر سے میں جاؤں کیسے
کوئی پیغام ہی مل جائے ترا پیار بھرا
فون پر آج کے دن بات ہی تو کر لے ذرا
تیری آواز سے کچھ دل کو سکوں آئے گا
عید کا دن تو کسی طور گزر جائے گا Dr.Zahid Sheikh
کھلے ہیں پھول تیری یاد مجھ کو آنے لگی (گیت حصہ دوم۔۔لڑکا) کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتا ہوں تجھے ان حسیں نظاروں میں
مری نگاہوں سے کیوں خود کو تو چھپانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
حسین پیروں کی خاطر یہ پھول لایا ہوں
نجانے کتنی تمنائیں لے کے آیا ہوں
تری جدائی مرا ضبط آزمانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
ہنسی کو بھول گئے اپنا حسن کھونے لگے
اداس تیرے لیے یہ گلاب ہونے لگے
گھٹا بھی تیرے لیے اشک اب بہانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی Dr.Zahid Sheikh
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتا ہوں تجھے ان حسیں نظاروں میں
مری نگاہوں سے کیوں خود کو تو چھپانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
حسین پیروں کی خاطر یہ پھول لایا ہوں
نجانے کتنی تمنائیں لے کے آیا ہوں
تری جدائی مرا ضبط آزمانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
ہنسی کو بھول گئے اپنا حسن کھونے لگے
اداس تیرے لیے یہ گلاب ہونے لگے
گھٹا بھی تیرے لیے اشک اب بہانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی Dr.Zahid Sheikh
کھلیں گے پھول تیری یاد مجھ کو آئے گی (گیت حصہ اول۔۔ لڑکی) کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
اداسیوں کا سماں ہو گا تیرے بعد صنم
بھلا سکوں گی بھلا کیسے تیرے پیار کا غم
یہ زندگی نہ کبھی پھر سے مسکرائے گی
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
فلک پہ چھائیں گے ٹھنڈی ہوا لیے بادل
مگر میں روؤں گی تیرے لیے یہاں پل پل
گھٹا برس کے مجھے اور بھی رلائے گی
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
مجھے یوں بانہوں بھر لینا یاد آئے گا
یہ تیرا پیار جتانا نہ بھول پائے گا
ترے بدن کی مہک ہر گھڑی ستائے گی
بہار آ کے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
بہار آ کے مرا دل بہت جلائے گی Dr.Zahid Sheikh
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
اداسیوں کا سماں ہو گا تیرے بعد صنم
بھلا سکوں گی بھلا کیسے تیرے پیار کا غم
یہ زندگی نہ کبھی پھر سے مسکرائے گی
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
فلک پہ چھائیں گے ٹھنڈی ہوا لیے بادل
مگر میں روؤں گی تیرے لیے یہاں پل پل
گھٹا برس کے مجھے اور بھی رلائے گی
بہار آکے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
مجھے یوں بانہوں بھر لینا یاد آئے گا
یہ تیرا پیار جتانا نہ بھول پائے گا
ترے بدن کی مہک ہر گھڑی ستائے گی
بہار آ کے مرا دل بہت جلائے گی
کھلیں گے پھول تری یاد مجھ کو آئے گی
بہار آ کے مرا دل بہت جلائے گی Dr.Zahid Sheikh
کھلے ہیں پھول تیری یاد مجھ کو آنے لگی کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتا ہوں تجھے ان حسیں نظاروں میں
مری نگاہوں سے کیوں خود کو چھپانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
حسین پیروں کی خاطر یہ پھول لایا ہوں
نجانے کتنی تمنائیں لے کے آیا ہوں
تری جدائی مرا ضبط آزمانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
ہنسی کو بھول گئے،اپنا حسن کھونے لگے
اداس تیرے لیے یہ گلاب ہونے لگے
گھٹا بھی تیرے لیے اشک اب بہانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی Dr.Zahid Sheikh
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتا ہوں تجھے ان حسیں نظاروں میں
مری نگاہوں سے کیوں خود کو چھپانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
حسین پیروں کی خاطر یہ پھول لایا ہوں
نجانے کتنی تمنائیں لے کے آیا ہوں
تری جدائی مرا ضبط آزمانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
ہنسی کو بھول گئے،اپنا حسن کھونے لگے
اداس تیرے لیے یہ گلاب ہونے لگے
گھٹا بھی تیرے لیے اشک اب بہانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی Dr.Zahid Sheikh
حیا سے تو نے جھکائیں جو دلنشیں آنکھیں (گیت) حیا سے تو نے جھکائیں جو دلنشیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
ترے بدن کی بلاتی ہے عنبریں خوشبو
تری لگن ہے مجھے،تیرے پیار کی آرزو
ترس رہا ہوں میں ہونٹوں کے جام پینے کو
یہ تیری آنکھوں میں کاجل ہے یا حسیں جادو
سحر لٹاتی ہیں تیری یہ سرمگیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
کھلی کھی سی جو زلفیں ہوا میں لہرائیں
لگا یوں مست گھٹائیں فلک پہ ہیں چھائیں
تمھارے آنے سے دل میں گلاب کھلنے لگے
اداس روح میں کلیاں وفا کی مسکائیں
ترنگ جاگی ،اٹھیں جو یہ نازنیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
حیا سے تو نے جھکائیں جو دلنشیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں Dr.Zahid Sheikh
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
ترے بدن کی بلاتی ہے عنبریں خوشبو
تری لگن ہے مجھے،تیرے پیار کی آرزو
ترس رہا ہوں میں ہونٹوں کے جام پینے کو
یہ تیری آنکھوں میں کاجل ہے یا حسیں جادو
سحر لٹاتی ہیں تیری یہ سرمگیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
کھلی کھی سی جو زلفیں ہوا میں لہرائیں
لگا یوں مست گھٹائیں فلک پہ ہیں چھائیں
تمھارے آنے سے دل میں گلاب کھلنے لگے
اداس روح میں کلیاں وفا کی مسکائیں
ترنگ جاگی ،اٹھیں جو یہ نازنیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں
حیا سے تو نے جھکائیں جو دلنشیں آنکھیں
دیوانہ مجھ کو بنانے لگیں حسیں آنکھیں Dr.Zahid Sheikh
فلک سے چاند اتر آیا میری بانہوں میں خاموشیوں میں بھی کہہ دی جو دل کی بات مجھے
ملی ہے پیار کی کتنی حسیں سوغات مجھے
جھکی جھکی سی نگاہوں کا اٹھ کے جھک جانا
تری حیا کے نہ بھولیں گے یہ لمحات مجھے
فلک سے چاند اتر آیا میری بانہوں میں
ملی ہے تاروں کی جیسے کوئی برات مجھے
دھک رہے ہیں محبت کے آج انگارے
جلا رہی ہے امنگوں کی یہ برسات مجھے
قریب پا کے تمھیں تو بدل گئی دنیا
لگا یوں جھومتی گاتی ملی حیات مجھے
بکھیر دو میرے شانے پہ پیار سے زلفیں
تم اپنے حسن کی دے دو ذرا خیرات مجھے
ہر ایک لمحہ تغیر تھا ،ایک وحشت تھی
تمھارے آنے سے جیسے ہے اک ثبات مجھے
عجیب طور سے گزری ہے زندگی میری
کبھی نہ ایسے ملے پرسکوں حالات مجھے
بھٹک رہا تھا بڑی پر اداس راہوں میں
خبر نہ تھی یوں ملے گی کبھی نشاط مجھے
تمھارے پیار نے بخشی ہے ہر خوشی مجھ کو
ملے ہو تم تو ملی ساری کائنات مجھے
خوشی ملی ہے تو غم میں بدل نہ جائے کہیں
یہ ڈر ہے پھر مری تقدیر دے نہ مات مجھے
بہکتی سانسیں، مچلتی ہوئی تمنائیں
نہ سونے دیں گی تمھیں نہ ہی ساری رات مجھے
تمھارا ہاتھ جو ہاتھوں میں آج ہے جاناں
ہر ایک چیز سے پیارے ہیں یہ لمحات مجھے
لبوں کو اے میری محبوب! کھول دو اب تو
دکھا دو اب تو چھپائے ہوئے جذبات مجھے
خدا نے وصل کے لمحوں کی شکل میں زاہد
سین تحفہ دیا اس حسین رات مجھے Dr.Zahid Sheikh
ملی ہے پیار کی کتنی حسیں سوغات مجھے
جھکی جھکی سی نگاہوں کا اٹھ کے جھک جانا
تری حیا کے نہ بھولیں گے یہ لمحات مجھے
فلک سے چاند اتر آیا میری بانہوں میں
ملی ہے تاروں کی جیسے کوئی برات مجھے
دھک رہے ہیں محبت کے آج انگارے
جلا رہی ہے امنگوں کی یہ برسات مجھے
قریب پا کے تمھیں تو بدل گئی دنیا
لگا یوں جھومتی گاتی ملی حیات مجھے
بکھیر دو میرے شانے پہ پیار سے زلفیں
تم اپنے حسن کی دے دو ذرا خیرات مجھے
ہر ایک لمحہ تغیر تھا ،ایک وحشت تھی
تمھارے آنے سے جیسے ہے اک ثبات مجھے
عجیب طور سے گزری ہے زندگی میری
کبھی نہ ایسے ملے پرسکوں حالات مجھے
بھٹک رہا تھا بڑی پر اداس راہوں میں
خبر نہ تھی یوں ملے گی کبھی نشاط مجھے
تمھارے پیار نے بخشی ہے ہر خوشی مجھ کو
ملے ہو تم تو ملی ساری کائنات مجھے
خوشی ملی ہے تو غم میں بدل نہ جائے کہیں
یہ ڈر ہے پھر مری تقدیر دے نہ مات مجھے
بہکتی سانسیں، مچلتی ہوئی تمنائیں
نہ سونے دیں گی تمھیں نہ ہی ساری رات مجھے
تمھارا ہاتھ جو ہاتھوں میں آج ہے جاناں
ہر ایک چیز سے پیارے ہیں یہ لمحات مجھے
لبوں کو اے میری محبوب! کھول دو اب تو
دکھا دو اب تو چھپائے ہوئے جذبات مجھے
خدا نے وصل کے لمحوں کی شکل میں زاہد
سین تحفہ دیا اس حسین رات مجھے Dr.Zahid Sheikh
سوچا تھا دل کا حال کسی طور جا کہیں اک حرف ناتواں ہے کہیں بھی تو کیا کہیں
سوچا تھا دل کا حال کسی طور جا کہیں
بیٹھے ہیں انتظار میں بے چینیاں لیے
شاید وہ لوٹ آئیں انھیں مدعا کہیں
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
تم ہی کہو کہ زیست کو کیوں نہ سزا کہیں
اک درد ہے جو روح کو رکھتا ہے مضطرب
اس درد لا دوا کو بلا آخر دوا کہیں
اوروں کی طرح تم بھی تو کچھ غیر کم نہیں
اپنا کہیں تو کیسے ،تمھیں کیوں جدا کہیں
اچھا ہے دل کو ایسے ہی بہلا لیا کریں
ہم بے رخی کو پیار کی کوئی ادا کہیں
سنتا ہے دیکھتا ہے نہ آہوں کا کچھ اثر
پتھر کو کیسے پوجیں، بھلا کیوں خدا کہیں
Dr.Zahid Sheikh
سوچا تھا دل کا حال کسی طور جا کہیں
بیٹھے ہیں انتظار میں بے چینیاں لیے
شاید وہ لوٹ آئیں انھیں مدعا کہیں
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
تم ہی کہو کہ زیست کو کیوں نہ سزا کہیں
اک درد ہے جو روح کو رکھتا ہے مضطرب
اس درد لا دوا کو بلا آخر دوا کہیں
اوروں کی طرح تم بھی تو کچھ غیر کم نہیں
اپنا کہیں تو کیسے ،تمھیں کیوں جدا کہیں
اچھا ہے دل کو ایسے ہی بہلا لیا کریں
ہم بے رخی کو پیار کی کوئی ادا کہیں
سنتا ہے دیکھتا ہے نہ آہوں کا کچھ اثر
پتھر کو کیسے پوجیں، بھلا کیوں خدا کہیں
Dr.Zahid Sheikh