Poetries by habib ganchvi
غم فراق کا نقصان سورج وہی راستے وہی طوفان وہی
رات وہی وحشت وہی انسان وہی
حالات سے لڑتے ہوئے ہر نئے موڑ پر
باتیں وہی منزل وہی داستان وہی
خیالات کے الجھے ہوئے گنجلوں میں
ٹوٹتے ہوئے سہمے ہوئے امکان وہی
ہر نئی شام سورج کے ڈھلتے رستے
لہو رنگ افق پہ بکھرے ہوئے ارمان وہی
سفر موت ہے جاری رہے گا موت تک
لیکن گزرتے لمحوں میں وصل کا امکان وہی
خزاں رت کے اداس لمحوں میں
غم فراق کا نقصان وہی habib ganchvi
رات وہی وحشت وہی انسان وہی
حالات سے لڑتے ہوئے ہر نئے موڑ پر
باتیں وہی منزل وہی داستان وہی
خیالات کے الجھے ہوئے گنجلوں میں
ٹوٹتے ہوئے سہمے ہوئے امکان وہی
ہر نئی شام سورج کے ڈھلتے رستے
لہو رنگ افق پہ بکھرے ہوئے ارمان وہی
سفر موت ہے جاری رہے گا موت تک
لیکن گزرتے لمحوں میں وصل کا امکان وہی
خزاں رت کے اداس لمحوں میں
غم فراق کا نقصان وہی habib ganchvi
شام کا ڈھلتا سورج ایک حسین دن کی کہانی ہے شام کا ڈھلتا سورج ایک حسین دن کی کہانی ہے
اُفق پر پھیلی سرخی اُس کی بکھری ہوئی جوانی ہے
یا حیران اس کی آنکھوں میں سمٹی حیا کی لالی ہے
یامست شبابی نینوں کی اُمڈتی ہوئی کہانی ہے
یا درد میں ڈوبے یادوں کی غمناک سی نشانی ہے
یا نشے میں بہکے خیالوں کی جھولتی ہوئی جوانی ہے habib ganchvi
اُفق پر پھیلی سرخی اُس کی بکھری ہوئی جوانی ہے
یا حیران اس کی آنکھوں میں سمٹی حیا کی لالی ہے
یامست شبابی نینوں کی اُمڈتی ہوئی کہانی ہے
یا درد میں ڈوبے یادوں کی غمناک سی نشانی ہے
یا نشے میں بہکے خیالوں کی جھولتی ہوئی جوانی ہے habib ganchvi
دیوار انا کی قائم تھی مرے ذات سے آگے دیوار انا کی قائم تھی مرے ذات سے آگے
بات بڑھ نہ سکی یوں رسم ملاقات سے آگے
خاک ر اہ عشق کی چھانی ہے صبح و شام
تھی عشق کی اُونچی منزل اوقات سے آگے
اشکوں میں چمک تو تھی ستاروں کی مانند
ٹپکا تو ملا خاک میں اظہار جذبات سے آگے
کہتے ہیں نشہ چشم تصور سے ممکن ہے
چشم تصور نہ ملی وہم و خیالات سے آگے
ہے خوف وصل کے لمحات کے خیال سے
سر نگوں نہ مرا عشق ہو اوقات سے آگے habib ganchvi
بات بڑھ نہ سکی یوں رسم ملاقات سے آگے
خاک ر اہ عشق کی چھانی ہے صبح و شام
تھی عشق کی اُونچی منزل اوقات سے آگے
اشکوں میں چمک تو تھی ستاروں کی مانند
ٹپکا تو ملا خاک میں اظہار جذبات سے آگے
کہتے ہیں نشہ چشم تصور سے ممکن ہے
چشم تصور نہ ملی وہم و خیالات سے آگے
ہے خوف وصل کے لمحات کے خیال سے
سر نگوں نہ مرا عشق ہو اوقات سے آگے habib ganchvi
میں نے بڑےموت کے سوداگردیکھے ہیں میں نے بڑےموت کے سوداگردیکھے ہیں
اُجڑتے ہوئے شہر کے شہر دیکھے ہیں
میں نے پوشیدہ شہد کی شیرینی میں
خاموش سی جان کنیں زہر دیکھے ہیں
گل فشاں میٹھی سی باتوں میں کبھی
مضمربڑے ہولناک قہر دیکھے ہیں
رات کی تاریک گناہوں میں لت پت
پاکیزہ ہستیوں کی سحر دیکھے ہیں
میں نے اس دیس میں صاحب منبر کے
خلوت میں بکھرتے شر دیکھے ہیں
ہم نے ظاہر میں بڑے دین داروں کے
باطن میں چُھپائے ہوئے کفر دیکھے ہیں
اُجڑی ہوئی بستی اُجڑے گھر دیکھے ہیں
ننگ دھڑنگ پھرتے بشر دیکھے ہیں
قانون کو چوکھٹ پہ رگڑتے سر دیکھا ہے
سیاست میں ایسے مشاق ہنر دیکھے ہیں habib ganchvi
اُجڑتے ہوئے شہر کے شہر دیکھے ہیں
میں نے پوشیدہ شہد کی شیرینی میں
خاموش سی جان کنیں زہر دیکھے ہیں
گل فشاں میٹھی سی باتوں میں کبھی
مضمربڑے ہولناک قہر دیکھے ہیں
رات کی تاریک گناہوں میں لت پت
پاکیزہ ہستیوں کی سحر دیکھے ہیں
میں نے اس دیس میں صاحب منبر کے
خلوت میں بکھرتے شر دیکھے ہیں
ہم نے ظاہر میں بڑے دین داروں کے
باطن میں چُھپائے ہوئے کفر دیکھے ہیں
اُجڑی ہوئی بستی اُجڑے گھر دیکھے ہیں
ننگ دھڑنگ پھرتے بشر دیکھے ہیں
قانون کو چوکھٹ پہ رگڑتے سر دیکھا ہے
سیاست میں ایسے مشاق ہنر دیکھے ہیں habib ganchvi
یہ اداسی کا گھٹا چھٹتا کیوں نہیں یہ اداسی کا گھٹا چھٹتا کیوں نہیں
یہ چاند یہ زمین وفلک پھٹتا کیوں نہیں
اتنے ظلم کی داستائیں یہ اتنے ظالم
یہ بھیانک منظر نظروں ہٹتا کیوں نہیں
تربت تا گلگت یہ خون کا دریا کیا ہے
بیوپار!اس خون کادام گھٹتا کیوں نہیں
ہم تو بٹے ہیں کئی قوموں فرقوں میں
دشمن کسی فرقے میں بٹتا کیوں نیں
habib ganchvi
یہ چاند یہ زمین وفلک پھٹتا کیوں نہیں
اتنے ظلم کی داستائیں یہ اتنے ظالم
یہ بھیانک منظر نظروں ہٹتا کیوں نہیں
تربت تا گلگت یہ خون کا دریا کیا ہے
بیوپار!اس خون کادام گھٹتا کیوں نہیں
ہم تو بٹے ہیں کئی قوموں فرقوں میں
دشمن کسی فرقے میں بٹتا کیوں نیں
habib ganchvi
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی کچلی ہے جبیں کس نے کشمیر کے گلشن کی
اور کیوں مرے گلشن میں بے وقت خزان آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
باغبان نے سجایاتھا گلشن کو گلابوں سے
افسوس کوئی آفت چپکے سے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
پھولوں نے نہ چوما تھا ہنس کر کبھی شبنم کو
نازک تیری کلیوں سے آواز فغان آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
رنگوں سے بھری صبحیں خوشیاں بھری شامیں ہوں
ایسی کوئی ساعت اس گھر میں کہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
تتلیوں کی رنگوں سے اٹھکیلیوں کا موسم تھا
خوشبو کی چاہت کیوں موت بن کے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
خون رنگ حنا بن کر ہاتھوں میں اُتر آیا
پھر شومئی قسمت بھی دھرلے سے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی habib ganchvi
اور کیوں مرے گلشن میں بے وقت خزان آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
باغبان نے سجایاتھا گلشن کو گلابوں سے
افسوس کوئی آفت چپکے سے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
پھولوں نے نہ چوما تھا ہنس کر کبھی شبنم کو
نازک تیری کلیوں سے آواز فغان آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
رنگوں سے بھری صبحیں خوشیاں بھری شامیں ہوں
ایسی کوئی ساعت اس گھر میں کہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
تتلیوں کی رنگوں سے اٹھکیلیوں کا موسم تھا
خوشبو کی چاہت کیوں موت بن کے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی
خون رنگ حنا بن کر ہاتھوں میں اُتر آیا
پھر شومئی قسمت بھی دھرلے سے یہاں آئی
کشمیر کے گلشن میں بے وقت خزان آئی habib ganchvi
چپ چاپ سا رہتا ہوں بہت یاد کرتا ہوں چپ چاپ سا رہتا ہوں بہت یاد کرتا ہوں
دل بے قرار ہوتا ہے اکثر شام کے بعد
تیری محبت کا میں ایک قیدی ہوں
ہوتی ہے مجھے اپنی خبر شام کے بعد
دن بھر ہجر کے مے خانوں میں تڑپتا ہوں
چھا جاتا ہے اس مے کا اثر شام کے بعد
تیری صورت کو ترس جاتا ہوں جب بھی
تیری صورت لیے پھرتا ہے قمر شام کے بعد
دل ویران کو چمن رونق کیا دے گا
اس دل میں تو ہوتی ہے سحر شام کے بعد
وہ بے رخی اس کی اداوں میں شامل ہے
چھلنی کیے دیتی ہے جگر شام کے بعد
میں اس خیال سے ڈر جاتاہوں ملنے سے
کہ ویران نہ ہو میرا نگر شام کے بعد
habib ganchvi
دل بے قرار ہوتا ہے اکثر شام کے بعد
تیری محبت کا میں ایک قیدی ہوں
ہوتی ہے مجھے اپنی خبر شام کے بعد
دن بھر ہجر کے مے خانوں میں تڑپتا ہوں
چھا جاتا ہے اس مے کا اثر شام کے بعد
تیری صورت کو ترس جاتا ہوں جب بھی
تیری صورت لیے پھرتا ہے قمر شام کے بعد
دل ویران کو چمن رونق کیا دے گا
اس دل میں تو ہوتی ہے سحر شام کے بعد
وہ بے رخی اس کی اداوں میں شامل ہے
چھلنی کیے دیتی ہے جگر شام کے بعد
میں اس خیال سے ڈر جاتاہوں ملنے سے
کہ ویران نہ ہو میرا نگر شام کے بعد
habib ganchvi
دن ہیں پریشان اور رات ہیں سنسان بہت دن ہیں پریشان اور رات ہیں سنسان بہت
حیران سے پھرتے ہیں یہاں انسان بہت
پہلے کوئی تہذیب تھی پیار کے دو بول پہ جھک جاتے تھے
اب تو بک جاتے ہیں انسان تہذیب ہے حیران بہت
پھرتے یہاں ہیں بدروح زندوں کا لبادہ لے کر
اب کے شہر ہے ویران آباد ہے قبرستان بہت
کبھی روٹی تھی میسر لوگ محنت پہ یقین رکھتے تھے
اب تو خاکستر ہیں خاک چھانتے ہوئے انسان بہت
اے خدا یہ کون سی قیامت یہاں ہوئی برپا ہے
فتوای منبر سے بہے جاتے ہیں خون مسلمان بہت
شائد ہم ہی نے روایات کا گلہ گھونٹا ہے
تہذیب غلط لی ہے بیچ کر ایمان بہت
روندے ہیں مراسم جو اخلاص پہ قائم تھے
بیچ کھائے ہیں سب نے ملک پاکستان بہت
بنیاد دین کو ہلائی ہیں مغرب کے تماشے دیکھ کر
پیسوں کے عوض بیچے ہیں آیات قرآن بہت
ووٹوں کے عوض ڈھونڈے نوٹوں کا نیا قانون
ضمیر کا سودا کر کے بدلے ہیں حکمران بہت
ڈھونڈے سے نہیں ملتے قدروں کا خیال کرنا
کیوں دستور جہاں مجھ کو کرتا ہے پریشان بہت habib ganchvi
حیران سے پھرتے ہیں یہاں انسان بہت
پہلے کوئی تہذیب تھی پیار کے دو بول پہ جھک جاتے تھے
اب تو بک جاتے ہیں انسان تہذیب ہے حیران بہت
پھرتے یہاں ہیں بدروح زندوں کا لبادہ لے کر
اب کے شہر ہے ویران آباد ہے قبرستان بہت
کبھی روٹی تھی میسر لوگ محنت پہ یقین رکھتے تھے
اب تو خاکستر ہیں خاک چھانتے ہوئے انسان بہت
اے خدا یہ کون سی قیامت یہاں ہوئی برپا ہے
فتوای منبر سے بہے جاتے ہیں خون مسلمان بہت
شائد ہم ہی نے روایات کا گلہ گھونٹا ہے
تہذیب غلط لی ہے بیچ کر ایمان بہت
روندے ہیں مراسم جو اخلاص پہ قائم تھے
بیچ کھائے ہیں سب نے ملک پاکستان بہت
بنیاد دین کو ہلائی ہیں مغرب کے تماشے دیکھ کر
پیسوں کے عوض بیچے ہیں آیات قرآن بہت
ووٹوں کے عوض ڈھونڈے نوٹوں کا نیا قانون
ضمیر کا سودا کر کے بدلے ہیں حکمران بہت
ڈھونڈے سے نہیں ملتے قدروں کا خیال کرنا
کیوں دستور جہاں مجھ کو کرتا ہے پریشان بہت habib ganchvi
ذہن کے گوشوں میں بند ماضی مجھے پھر یاد آتا ہے کئی قصے پرانے
وہ مہکتے دن اور مدہم
ذہن کے گوشوں میں بند ماضی
کہیں اب بھی وہ زندہ ہیں
گرم سانسیں کہیں
دور راستے کی دھول کی مانند
بلاتی ہیں مجھے پھر سے
مسافر، عدم کی راہی
مجھے احساس ہونے کا
دلاتی ہیں۔
وہی پت جھڑ، وہی راستے
وہی پھر عدم سے دوچار
درختوں کے تنوں پر پھڑ پھڑاتے خشک پتے،
اور بے خیالی ، جھیل کا ساحل
وہ آبگینہ تیری آنکھوں کا بھر جانا
لرزتے ہونٹ سے بہتے
وہ ٹھنڈ لفظوں کی گرمائش
وہ بہتا بادہ تر، اور غموں کا آتشیں گھونٹ
اور وہ مخمور آنکھیں
مجھے پھر یاد آتی ہیں
رواج زندگی کا معاملہ بھی کچھ عجب سا ہے
کہیں دو پل گراں لگنا کہیں صدیوں کا کم پڑنا
کہیں پھر دور تک چل کر پلٹنا الوداع کہنا
گرجنا فکر کے بادل، محبت بارشیں کرنا
اور غموں کے سیل میں
بہہ کر ختم ہونا امر ہونا
مجھے پھر یاد آتی ہیں۔ habibullah khial
وہ مہکتے دن اور مدہم
ذہن کے گوشوں میں بند ماضی
کہیں اب بھی وہ زندہ ہیں
گرم سانسیں کہیں
دور راستے کی دھول کی مانند
بلاتی ہیں مجھے پھر سے
مسافر، عدم کی راہی
مجھے احساس ہونے کا
دلاتی ہیں۔
وہی پت جھڑ، وہی راستے
وہی پھر عدم سے دوچار
درختوں کے تنوں پر پھڑ پھڑاتے خشک پتے،
اور بے خیالی ، جھیل کا ساحل
وہ آبگینہ تیری آنکھوں کا بھر جانا
لرزتے ہونٹ سے بہتے
وہ ٹھنڈ لفظوں کی گرمائش
وہ بہتا بادہ تر، اور غموں کا آتشیں گھونٹ
اور وہ مخمور آنکھیں
مجھے پھر یاد آتی ہیں
رواج زندگی کا معاملہ بھی کچھ عجب سا ہے
کہیں دو پل گراں لگنا کہیں صدیوں کا کم پڑنا
کہیں پھر دور تک چل کر پلٹنا الوداع کہنا
گرجنا فکر کے بادل، محبت بارشیں کرنا
اور غموں کے سیل میں
بہہ کر ختم ہونا امر ہونا
مجھے پھر یاد آتی ہیں۔ habibullah khial
عہد رفتہ کے رواجوں سے مانوس کہاں ہوں عہد رفتہ کے رواجوں سے مانوس کہاں ہوں
تنہائی کے گوشوں میں بسا اپنا جہاں ہوں
اس ہنگامہ دنیا سے مجھے ہوتی ہے الجھن
آتا نہیں ہے مجھ کو بے کار کے بندھن
پرواز مری سوچ کے گمنام جزیرے
حیران مرے عقل کے دربان و پہرے
میں عقل و خرد سے ہوں بے گانہ و بے نیاز
جزبوں کے سمندر میں غرقاب مرے راز
رواجوں کی گرفت میں مقید یہاں انسان
خود ساختہ عقوبت خانوں میں حیران پریشان
جزبات سے خالی ہیں یہ اخلاص کے نعرے
روابات سڑک پر اور تہزیب ہیں بہرے
ایمان بیچ کھایا یہاں اہل جہاں
تہزیب گھٹنے پر پڑی ہے زپیش جواں
کیوں مجھ میں بسا وحشت و حیران کے زندان
رشتے ہیں پھنسے طمع دیواروں کے درمیان habibullah khial
تنہائی کے گوشوں میں بسا اپنا جہاں ہوں
اس ہنگامہ دنیا سے مجھے ہوتی ہے الجھن
آتا نہیں ہے مجھ کو بے کار کے بندھن
پرواز مری سوچ کے گمنام جزیرے
حیران مرے عقل کے دربان و پہرے
میں عقل و خرد سے ہوں بے گانہ و بے نیاز
جزبوں کے سمندر میں غرقاب مرے راز
رواجوں کی گرفت میں مقید یہاں انسان
خود ساختہ عقوبت خانوں میں حیران پریشان
جزبات سے خالی ہیں یہ اخلاص کے نعرے
روابات سڑک پر اور تہزیب ہیں بہرے
ایمان بیچ کھایا یہاں اہل جہاں
تہزیب گھٹنے پر پڑی ہے زپیش جواں
کیوں مجھ میں بسا وحشت و حیران کے زندان
رشتے ہیں پھنسے طمع دیواروں کے درمیان habibullah khial
شوریدہ دل کچھ شور سا ہونے لگا ہے کوچہ دل میں
اے کاش وہ یادیں ہوں اور آنکھ نم ہوجائے
تشنہ وصل کوچہ دل میں لیے پھرتا ہوں
شاید شب غم کرب و ستم آج ختم ہوئے
اب رہ گیا ہے روح کی تسکین کو فقط
ایک آگ سی جدائی اور مجلس غم ہوجائے
آج مرے دل میں ہجر کی تقریب رونمائی ہے
آپ کو دعوت ہے پھر سلسلہ رنج و الم ہوجائے
میں دیکھتا ہوں ہر شے اب میری شاعری ہے
باقی ہیں چند باتیں ، بس نزر قلم ہوجائے habibullah khial
اے کاش وہ یادیں ہوں اور آنکھ نم ہوجائے
تشنہ وصل کوچہ دل میں لیے پھرتا ہوں
شاید شب غم کرب و ستم آج ختم ہوئے
اب رہ گیا ہے روح کی تسکین کو فقط
ایک آگ سی جدائی اور مجلس غم ہوجائے
آج مرے دل میں ہجر کی تقریب رونمائی ہے
آپ کو دعوت ہے پھر سلسلہ رنج و الم ہوجائے
میں دیکھتا ہوں ہر شے اب میری شاعری ہے
باقی ہیں چند باتیں ، بس نزر قلم ہوجائے habibullah khial
درد عشق ٹھٹرتی شام کے آغوش میں دو پل ٹھہر جانا
نظارہ مدہمی سورج کا ندیا میں اُتر جانا
ہبوط عشق جاناں میں وہ لمحوں کا گزر جانا
مجھے پھر یاد آتی ھے
رواج زندگی کا معاملہ بھی کچھ عجب سا ہے
کہیں صدیوں کا کم پڑنا کبھی دو پل گراں لگنا
آپ لوگوں کو دعوت ہے کہ اس غزل کو مکمل کریں دیکھتے ہیں کون کتنا بڑا شاعر ہے۔۔۔۔ habib ganchevi
نظارہ مدہمی سورج کا ندیا میں اُتر جانا
ہبوط عشق جاناں میں وہ لمحوں کا گزر جانا
مجھے پھر یاد آتی ھے
رواج زندگی کا معاملہ بھی کچھ عجب سا ہے
کہیں صدیوں کا کم پڑنا کبھی دو پل گراں لگنا
آپ لوگوں کو دعوت ہے کہ اس غزل کو مکمل کریں دیکھتے ہیں کون کتنا بڑا شاعر ہے۔۔۔۔ habib ganchevi
خواب کو بس خواب رہنے دو خواب کو بس خواب رہنے دو
مرے جذبات کو با حجاب رہنے دو
دل ویران میں سجائے ہیں یاد کے کئی گلشن
میں تو صحرا کا ایک پھول ہوں بے آب رہنے دو
سورج کی روشنی شعلوں کی ہی بدولت ہے
جلنا اس کی فطرت ہے آب تاب رہنے دو
زندگی پل دو پل گراں تھی مگر پھر بھی
ناکامئی عشق کو غلطیءشباب رہنے دو
سُروں کی محفلیں عروج پر ہیں اے دل
ساز کی تاروں کو کچھ دیر بے تاب رہنے دو
میں لہروں سے لڑ کر آیا ہوں تڑپنے دو
اسی تڑپ میں مزہ ہے ماہی بے آب رہنے دو
زندگی پھول ہے نہ کرن نہ کلی نہ خوشبو
بس درد کی کہانیاںہیں اسے کتاب رہنے دو
عشق کہیں دور مرے دل سے آواز دیتا ہے
سدا آگ کے شعلوں پر خود کو کباب رہنے دو
habib ganchvi
مرے جذبات کو با حجاب رہنے دو
دل ویران میں سجائے ہیں یاد کے کئی گلشن
میں تو صحرا کا ایک پھول ہوں بے آب رہنے دو
سورج کی روشنی شعلوں کی ہی بدولت ہے
جلنا اس کی فطرت ہے آب تاب رہنے دو
زندگی پل دو پل گراں تھی مگر پھر بھی
ناکامئی عشق کو غلطیءشباب رہنے دو
سُروں کی محفلیں عروج پر ہیں اے دل
ساز کی تاروں کو کچھ دیر بے تاب رہنے دو
میں لہروں سے لڑ کر آیا ہوں تڑپنے دو
اسی تڑپ میں مزہ ہے ماہی بے آب رہنے دو
زندگی پھول ہے نہ کرن نہ کلی نہ خوشبو
بس درد کی کہانیاںہیں اسے کتاب رہنے دو
عشق کہیں دور مرے دل سے آواز دیتا ہے
سدا آگ کے شعلوں پر خود کو کباب رہنے دو
habib ganchvi
ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں
مري سادگي ديکھ کيا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابي
کوئي بات صبر آزما چاہتا ہوں
يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہي لن تراني سنا چاہتا ہوں
کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھري بزم ميں راز کي بات کہہ دي
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں habib ganchvi
مري سادگي ديکھ کيا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابي
کوئي بات صبر آزما چاہتا ہوں
يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہي لن تراني سنا چاہتا ہوں
کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھري بزم ميں راز کي بات کہہ دي
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں habib ganchvi
دکھ تو ہوتا ہے نا جب کوئی میرا اپنا نہ ہو زندگی اًونچ نیچ کا ایک کٹھن سلسلہ ہے
کبھی ہنسی خوشی کبھی درد کا راستہ ہے
ناکردہ گناہوں کا بس ایک صلہ ہے
کبھی شام تلک سوکھے پتّوں پے سوتا رہا
کبھی چاند کے آنگن میں راتوں کو جاگتا رہا
اور کبھی چپ چاپ چلتا رہا ۔۔چلتا رہا
کہیں تاریک راہوں میں سرپٹ گزرتا رہا
کہیں سورج تلے رہ گزر میرا راستہ رہا
اور کبھی بیٹھے بیٹھے یونہی دن گزرتا رہا
کبھی خود سے لڑکر جو میں رو پڑا
کبھی چلتے چلتے کہیں میں کھو پڑا
کبھی آنکھ میں آنسو بھرا یونہی سو پڑا
کبھی دل کر ے کہ کوئی پاس ہو کہ مجھ کو منائے
مجھ پے غصّہ کرے میرے زخموں پے مرہم بھرے
کبھی لڑپڑے پھر گلے لگ کے آہیں بھرے
کاش کسی آنکھ میں آنسو ہو میرے لئے
کوئی گھر کی چوکھٹ پے گھنٹوں کھڑے
انتظار میرا کرے میرا راستہ تکے
کیسے گزرتا ہے رات دن کوئی پوچھنے والا نہ ہو
کوئی میرا اپنا نہ ہو مجھ کو سوچنے والا نہ ہو
دکھ تو ہوتا ہے نا جب کوئی میرا اپنا نہ ہو habib ganchvi
کبھی ہنسی خوشی کبھی درد کا راستہ ہے
ناکردہ گناہوں کا بس ایک صلہ ہے
کبھی شام تلک سوکھے پتّوں پے سوتا رہا
کبھی چاند کے آنگن میں راتوں کو جاگتا رہا
اور کبھی چپ چاپ چلتا رہا ۔۔چلتا رہا
کہیں تاریک راہوں میں سرپٹ گزرتا رہا
کہیں سورج تلے رہ گزر میرا راستہ رہا
اور کبھی بیٹھے بیٹھے یونہی دن گزرتا رہا
کبھی خود سے لڑکر جو میں رو پڑا
کبھی چلتے چلتے کہیں میں کھو پڑا
کبھی آنکھ میں آنسو بھرا یونہی سو پڑا
کبھی دل کر ے کہ کوئی پاس ہو کہ مجھ کو منائے
مجھ پے غصّہ کرے میرے زخموں پے مرہم بھرے
کبھی لڑپڑے پھر گلے لگ کے آہیں بھرے
کاش کسی آنکھ میں آنسو ہو میرے لئے
کوئی گھر کی چوکھٹ پے گھنٹوں کھڑے
انتظار میرا کرے میرا راستہ تکے
کیسے گزرتا ہے رات دن کوئی پوچھنے والا نہ ہو
کوئی میرا اپنا نہ ہو مجھ کو سوچنے والا نہ ہو
دکھ تو ہوتا ہے نا جب کوئی میرا اپنا نہ ہو habib ganchvi