✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
khalid Roomi
Search
Add Poetry
Poetries by khalid Roomi
آدمی کچھ وہ بے مثال نہیں
آدمی کچھ وہ بے مثال نہیں
جس کے دل میں ترا خیال نہیں
جز محبت کے کچھ سوال نہیں
یہ سوال اتنا بھی محال نہیں
عشق ہے عشق، دل لگی نہ سمجھ
بات میری تو ہنس کے ٹال نہیں
ہم سمجھتے تھے با وفا جس کو
ہجر کا اس کو کچھ خیال نہیں
آرزو زندگی کی کیا میں کروں
جب میسر ترا وصال نہیں
لوگ دیکھیں جو بے نقاب تجھے
ان کی آنکھوں کو یہ مجال نہیں
حسن پر ہے غرور یہ بر حق
میری پگڑی مگر اچھال نہیں
ہم نے دیکھیں ہیں دل نشیں تو بہت
شہر میں آپکی مثال نہیں
واظوں کو ذرا بھی رومی ! کچھ
اب میسر وہ جذب و حال نہیں
Khalid Roomi
Copy
زیست اپنی جہاں میں فسانہ ہوئی
زیست اپنی جہاں میں فسانہ ہوئی
دوستوں کے ستم کا نشانہ ہوئی
جو تھی حاصل کبھی، وہ مسرت، مجھے
کر کے غم کے حوالے روانہ ہوئی
قیس کا ہم نفس وہ نہیں ہے جسے
دشت میں۔ خواہش آشیانہ ہوئی
کون آداب الفت سے ہے با خبر
عاشقی اب تو رسم زمانہ ہوئی
بربط دل مرا کیجئے گا قبول
آپکو جب غزل گنگنانا ہوئی
نطق میرا بنا درد کا ترجماں
شاعری میری رومی ! یگانہ ہوئی
کیسا میخانہ اور کیا مری میکشی
غم مٹانے کا رومی ! بہانہ ہوئی
Khalid ROOMI
Copy
تلخ تر پھر داستاں ہوتی گئی
تلخ تر پھر داستاں ہوتی گئی
ہر حقیقت جب عیاں ہوتی گئی
زندگی جب بیکراں ہوتی گئی
پھر محبت ناگہاں ہوتی گئی
راز دل کا جب بیاں ہوتا گیا
بے رخی درمیاں ہوتی گئی
دولت احساس جب بڑھنے لگی
آدمیت پھر جواں ہوتی گئی
ہر زمانے میں وفا کی داستاں
یوں ہی بے نشاں ہوتی گئی
بد نصیبی سے طلب کے باغ میں
ہر بہار اپنی خزاں ہوتی گئی
ہر جتن تسکین کا بے کار تھا
کاوش دل رائگاں ہوتی گئی
ہر زمانے میں سکون و درد کا
یہ غزل ہی ترجماں ہوتی گئی
یوں بسر کی رات تیرے ہجر میں
سانس بھی آہ و فغاں ہوتی گئی
حادثوں سے اس طرح دل بجھ گیا
آرزو رومی دھوں ہوتی گئی
Khalid ROOMI
Copy
ہے جنوں میں مجھ کو ہر دم یہی ایک کام کرنا
ہے جنوں میں مجھ کو ہر دم یہی ایک کام کرنا
ترے سنگ آستاں پہ یہ جبین شوق دھرنا
جو نہیں وفا پرستی تو اسے وہ کیا کہیں گے
ہے متاع شوق میری، سر راہ ان پہ مرنا
رخ عاشقی کی زینت ہے تری گلی کی مٹی
ہے طریق اہل الفت اسی طرح سے سنورنا
مرا حال غم جہاں میں نہ کسی سے چھپ سکے گا
مرا کام ہجر میں ہے شب و روز آہ بھرنا
کوئی غم گسار پایا نہ کسی نے دی تسلی
تری راہ تکتے تکتے پڑا جان سے گزرنا
ترے غم زدوں کی کیسی ہے عجیب تر یہ عادت
رتے ذکر پر مچلنا، ترے نام پر نکھرنا
یہی رمز عاشقی ہے، یہی عین بندگی ہے
جو خلش ہے بےخودی کی، ہے اسی میں جینا مرنا
مجھے اہل زر نے دی ہیں یہاں دھمکیاں بھی لیکن
میں تری گلی کا سائل، مجھے کیا کسی سے ڈرنا
یہ جو سر بکف ہیں پھرتے، انھیں تم نہ سہل جانو
یہی لوگ جانتے ہیں ، یہاں ڈوب کر ابھرنا
یہی آرزو ہے دل کی، ہو نصیب مجھ کو ساقی !
کسی دن غبار بن کے ترے شہر میں بکھرنا
عجب آدمی ہے رومی بھی بقاع آب و گل میں
ہے جہاں میں جس کا شیوہ سر عام بات کرنا
Khalid Roomi
Copy
اغیار کا ہوا ہے طرف دار آجکل
اغیار کا ہوا ہے طرف دار آجکل
اڑتا ہے کن ہواؤں میں دلدار آجکل
ہوتی ہے گفتگو پس دیوار آجکل
دیتے ہیں نت نئے ہمیں آزار آجکل
غمزے وہ الحفیظ ، تبسم وہ الاماں !
ہے ایک قہر حسن کی سرکار آجکل
ان کی ادائے ناز قیامت کی ترجماں
یارو ! غضب ہے شوخیء گفتار آجکل
ہر ہر قدم پہ فتنے اٹھائے چلی گئی
مستی میں ہے وہ چشم فسوں کار آجکل
ہم لوگ کب کے دیر و حرم سے گزر چکے
چھوٹے نہیں ہیں سبحہ و زنار آجکل
کس کو سنائیں درد و الم کا یہ ماجرا
ملتا نہیں ہے غم کا خریدار آجکل !
کردار میں فریب، سخن مصلحت، دروغ
باقی کہاں ہے بات کا معیار آجکل
دشت جنوں میں لائی ہیں کچھ ایسے وحشتیں
بھاتے نہیں ہمیں گل و گلزار آجکل
رومی کی بات کا نہ برا آپ جانئے
رہتا ہے وہ تو خود سے بھی بیزار آجکل
اپنا یہی ہے اب تو شب و روز مشغلہ
رومی کے پڑھتے رہتے ہیں اشعار آجکل
Khalid ROOMI
Copy
زندگی اور بھی پر جوش ہوئی جاتی ہے
زندگی اور بھی پر جوش ہوئی جاتی ہے
اب تری یاد فراموش ہوئی جاتی ہے
بزم پھر بے خود و مدہوش ہوئی جاتی ہے
وہ نظر بادہ سر جوش ہوئی جاتی ہے
عرصہء حشر کی رونق ہیں ادائیں ان کی
نگہ خاص خطا پوش ہوئی جاتی ہے
پیر میخانہ دکاں اپنی بڑھانے کو اٹھا
مستیء شوق فراموش ہوئی جاتی ہے
عشق میں ضعف نے اس حال کو پہنچایا ہے
زندگی بار تن و توش ہوئی جاتی ہے
دل کے گلشن میں بھی آیا ہے خزاں کا موسم
آرزو محشر خاموش ہوئی جاتی ہے
اب ہمیں راحت و آرام کی خواہش ہے کہاں ؟
ہر خوشی اب تو الم کوش ہوئی جاتی ہے
سر بسر نقشہ بنا جاتا ہوں بے تابی کا
یاس ہی یاس ہم آغوش ہوئی جاتی ہے
دل میں جذبات عقیدت ہیں ، نگاہوں میں نیاز
لو، وفا صدقہء پاپوش ہوئی جاتی ہے
کوئی طوفان اٹھائے گی یقینا رومی !
پھر طبیعت جو بلا نوش ہوئی جاتی ہے
Khalid ROOMI
Copy
ہر گوہر طلب مجھے بے انتہا ملا
ہر گوہر طلب مجھے بے انتہا ملا
اللہ کے کرم سے غم مصطفٰی ملا
جب بھی ملا کسی کو تو بے التجا ملا
صد شکر آپ سا ہمیں حاجت روا ملا
جز مصطفٰی کہیں کسے ہم داستان غم
دکھ درد سے ہمارے وہی آشنا ملا
سر پر رہیں بنی کی مسلسل عنایتیں
ہر اک قدم پہ لطف شہ انبیا ملا
حاجت رہی نہ کاسہ و کشکول کی ہمیں
اس در پہ آکے سبکو طلب سے سوا ملا
جو لطف مصطفٰی کی غلامی میں ہے نہاں
دل کو کہیں جہاں میں نہ ایسا مزا ملا
اس پر ہیں آشکار حقیقت کے راز سب
نسبت نبی سے جس کو ہے، اس کو خدا ملا
سورج پھرا جو الٹا تو ٹکڑے ہوا قمر
یکتا تری طرح سے ترا معجزا ملا
کشتی کنارے آپ مری جا لگے گی اب
مشکل کا خوف کیا ، جسے مشکل کشا ملا
اللہ نے حضور کی عظمت بڑھائی یوں
ہر تاجدار ان کے ہی در کا گدا ملا
شہرہ ہوا جہان میں میرا اسی طفیل
نعت نبی کا مجھکو الگ ہی صلہ ملا
رومی کو ڈھونڈتے تھے زمانے میں در بدر
ہم کو در حبیب خدا پر پڑا ملا
Khalid ROOMI
Copy
وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ مرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر
مرا کہنا یہی ہے ، تو نہ رخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی ، جو بھی تیرا مدعا ہو ، کر
نہ وہ محفل، نہ وہ ساقی ، نہ وہ ساغر، نہ وہ بادہ
ہماری زندگی اب رہ گئی ہے بے مزا ہو کر
معاذاللہ ! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر
بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر ، مسکرا کر، روٹھ کر ، تن کر، خفا ہو کر
نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر
انھیں پھر کون جانچے ، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر
مرے دل نے حسینوں میں مزے لوٹے محبت کے
کبھی اس پر فدا ہو کر ، کبھ اس پر فدا ہو کر
جہاں سے وہ ہمیں ہلکی سی اک آواز دیتے ہیں
وہاں ہم جا پہنچتے ہیں محبت میں ہوا ہو کر
سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیر زار ! وہ ہم سے خفا ہو کر
Khalid Roomi
Copy
بسے ہیں آپ مرے دل میں عمر بھر کے لئے
بسے ہیں آپ مرے دل میں عمر بھر کے لئے
صدف بنا تھا یہ شاید اسی گہر کے لئے
بلا خریدی ہے میں نے یہ عمر بھر کے لئے
تمھاری زلف کا سودا ہے میرے سر کے لئے
جو بے غرض نہ ہو، جس میں نہ ہو خلوص کوئی
سلام ایسے تعلق کو عمر بھر کے لئے
شب فراق کی لذت کہاں نصیب انھیں
دعائیں مانگتے رہتے ہیں جو سحر کے لئے
ہوا یہی کہ رکے بزم غیر میں جا کر
ارادہ کر کے چلے تھے وہ میرے گھر کے لئے
ہمارے دل کو متاع حیات کب سمجھا
نشانہ چاہیئے اس شوخ کو نظر کے لئے
جو سادتان غم و درد کا خلاصہ ہو
مجھے وہ اشک ہے درکار، چشم تر کے لئے
ہوس کی آنکھ سے اوجھل ہے بندگی کا مقام
علو عجز ہی معراج ہے بشر کے لئے
عدم کو لے کے چلا ہوں نصیر ! داغ فراق
یہ زاد راہ ہے بہت مجھے سفر کے لئے
Khalid Roomi
Copy
آج اک اک بادہ کش مسرور میخانے میں ہے
آج اک اک بادہ کش مسرور میخانے میں ہے
تازہ تازہ اس کے، اس کے سب کے پیمانے میں ہے
شیخ جل اٹھے گا تو ! وہ شعلہ میخانے میں ہے
مے نہیں یہ ، اک دہکتی آگ پیمانے میں ہے
اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے ساری خلق کو
اک ادائے خاص ایسی ان کے دیوانے میں ہے
دیر بوتل کے اٹھانے میں لگے گی کچھ نہ کچھ
مجھ کو اتنی ہی بہت ہے ، جتنی پیمانے میں ہے
میکدے میں آنے والو ! میکدہ مت چھوڑنا
مرے جینے کا مزا کچھ ہے ، تو میخانے میں ہے
پی رہا ہوں۔ جی رہا ہوں، شاد ہوں، مسرور ہوں
زندگی ہی زندگی لبریز پیمانے میں ہے
دل کی بے کیفی کا یہ عالم ہوا بعد جنوں
لطف جینے کا نہ گلشن میں ، نہ ویرانے میں ہے
دھیان ہے آہٹ پہ، حسرت دل میں ہے، آنکھوں میں دم
ہم چلے دنیا سے ، ان کو دیر اگر آنے میں ہے
جاگ اٹھی قسمت ، مقدر جگمگا اٹھا نصیر
جلوہ فرما آج کوئی میرے کاشانے میں ہے
Khalid Roomi
Copy
عجب ہے شب غم کے ماروں کی دنیا
عجب ہے شب غم کے ماروں کی دنیا
لرزتی ہے جن سے ستاروں کی دنیا
یہ بزم بتاں ہے نظاروں کی دنیا
اداؤں کی بستی، اشاروں کی دنیا
صبا نے کئے چاک، پھولوں کے دامن
جو دیکھی ترے دل فگاروں کی دنیا
ہمارے لئے ہے، تمھارے لئے ہے
خزاں کا زمانہ ، بہاروں کی دنیا
انھیں کی پروا، انھیں کس سے مطلب
الگ سب سے ہے بادہ خواروں کی دنیا
جگر چاک، دل چاک ، نم ناک آنکھیں
یہ ہے آپ کے بے قراروں کی دنیا
چنی ہے اس انداز سے اس نے افشاں
جبیں بن گئی چاند تاروں کی دنیا
جدھر سے گزرتے ہیں دیوانے تیرے
قدم چومتی ہے بہاروں کی دنیا
ہمیں ہے فقیری میں شاہی میسر
کہاں ہم ، کہاں تاجداروں کی دنیا
نصیر ! اس کو اللہ آباد رکھے
اجاڑی ہے جس نے ہزاروں کی دنیا
Khalid Roomi
Copy
پیمان وفا اور ہے سامان جفا اور
پیمان وفا اور ہے سامان جفا اور
اس فتنہ ء دوراں نے کہا اور، کیا اور
تیور الگ، انداز جدا ، ان کی ادا اور
وہ اور ہوا میں ہیں، زمانے کی ہوا اور
ترکیب کوئی ان کو منانے کی ہو کیا اور
میں جتنا مناتا ہوں ، وہ ہوتے ہیں خفا اور
پی لیں جو کبھی شیخ تو پی پی کے پکاریں
اے ساقی ء میخانہ ! ذرا اور ، ذرا اور
محروم ہوا دین سے ، دنیا کی طلب میں
نا فہم نے کچھ اور ہی ساچا تھا ، ہوا اور
پھولوں کی وہاں دھوپ، یہاں سایہ ء وحشت
گلشن کی فضا اور ہے ، صحرا کی فضا اور
انصاف ملے گا سر میدان قیامت
ان کا نہ خدا اور، نہ میرا ہی خدا اور
دیکھیں ذرا ہم بھی تو اسے ، اے ہمہ خوبی
ہم جیسا وفا دار کوئی ڈھونڈ کے لا ! اور
چھوڑین نہ محبت کو نصیر ! اہل محبت
یہ شوق خطا ہے ، تو خطا اور خطا اور
Khalid Roomi
Copy
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتش گل نے چمن میں ہر تنکا
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمال بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ رلایا ہممیں مقدر نے
ہم ان کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو
نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں
سنا تو دی ہے انھیں داستاں، “ سنانے کو “
کہو کہ ہم سے رہیں دور حضرت واعظ
بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو
اب ایک جشن قیامت ہی اور باقی ہے
اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو
شب فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی
غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو
نصیر ! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی
تلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اٹھانے کو
Khalid Roomi
Copy
ان سے ہر وقت مری آنکھ لڑی رہتی ہے
ان سے ہر وقت مری آنکھ لڑی رہتی ہے
کیا لڑاکا ہے کہ لڑنے پہ اڑی رہتی ہے
دیکھ کر وقت کے مقتل میں مری شان ورود
ڈر میں قاتل ہی نہیں، موت کھڑی رہتی ہے
تیری تصویر مرے دل میں نگینے کی طرح
جگمگاتی ہے، چمکتی ہے، جڑی رہتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں پامال محبت مجھ کو
میری چاہت ترے قدموں میں پڑی رہتی ہے
آفتیں لاکھ ہوں ، دیکھا نہ کبھی چہرہ ء یاس
مجھ کو اللہ سے امید بڑی رہتی ہے
جو کبھی خون شہیداں سے حنا بند رہے
اب انھیں پھول سے ہاتھوں میں چھڑی رہتی ہے
یوں نہ اترا ! کہ جوانی بھی آنی جانی
چاندنی چاند کی دو چار گھڑی رہتی ہے
گریہ ء چشم کا الفت میں یہ عالم ہے نصیر
کوئی موسم بھی ہو ساون کی جھڑی رہتی ہے
Khalid Roomi
Copy
اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اب سبک دوش کرے یوں ، کہ مرا سر کاٹے
صبح آلام ، شب غم ، کوئی کیوں کر کاٹے
دن مصیبت کے کہاں تک دل مضطر کاٹے
بے ستوں سے یہ ابھرتی ہے صدائے شیریں
کوئی فرہاد بنے ، تیشے سے پتھر کاٹے
اس سے پوچھے کوئی ایام اسیری کا عذاب
زندگی اپنی جو صیاد کے گھر پر کاٹے
نہ ملا تو ، نہ ملاقات کی صورت نکلی
مدتوں ہم نے ترے شہر کے چکر کاٹے
زلف وہ سانپ ، کہ لوٹے ہے ترے قدموں پر
غیر کے شانوں پہ بکھرے ، تو برابر کاٹے
موت اچھی کہ پس مرگ سکوں ملتا ہے
زندگی کون شب و روز تڑپ کر کاٹے
ایسے وحشی کا اگر ہو تو ٹھکانا کیا ہو
دشت میں جس کو نہ چین آئے ، جسے گھر کاٹے
ساقی ء کوثر و تسنیم سے نسبت ہے نصیر
کیوں نہ دنیا مرے میخانے کے چکر کاٹے
Khalid Roomi
Copy
ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانا دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا
زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں حسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تھاہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا
دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا
ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا
میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ، تھکانا دل کا
وہ بھی پانے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
“ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “
خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے
زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا
بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے
لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانا دل کا
لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا
Khalid Roomi
Copy
ہزاروں بار تیری انجمن میں ، میں گیا آیا
ہزاروں بار تیری انجمن میں ، میں گیا آیا
کبھی تو بھی یہ کہہ دے میرا دل چاہا چلا آیا
ملا کر خاک میں مجھ کو ، بتاؤ کیا مزا آیا
تمھیں کیا مل گیا آخر ، تمھارے ہاتھ کیا آیا
جو آیا بھی اسے تو صرف انداز جفا آیا
وفا کی راہ پر کب وہ وفا نا آشنا آیا
وہ چونکے، مجھ کو دیکھا ، اور ماتھے پر شکن آئی
مرے غم کے فسانے میں جہاں ذکر وفا آیا
انھیں لکھا ہے خط میں نے، نتیجہ دیکھئے کیا ہو
مرے قاصد کا دعوٰی ہے کہ بس میں اب گیا “ آیا “
نہیں تھے وہ ، تو میخانہ تھا سونا ، جام ویراں تھے
وہ آ پہنچے تو پھر پینے پلانے کا مزا آیا
یہ کہہ کہہ کر پلا دی مجھ کو میخانے میں ساقی نے
ارے اب پی بھی لے ، ایسا کہاں کا پارسا آیا
نظر سے دور ہو جاؤ ، چلو ، اٹھو، ہوا کھاؤ
نصیر ! ان کی طرف سے یہ جواب مدعا آیا
Khalid Roomi
Copy
خموشی کی زباں میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
خموشی کی زباں میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
ہمیں اشکوں سے شرح ارزو کرنی بھی آتی ہے
فقط ہاتھوں سے مہندی کو رچانا ہی نہیں آتا
انھیں ہر آرزو میری لہو کرنی بھی آتی ہے
نہیں دشوار کوئی ، منزل مقصود کا ملنا
سفر در پیش ہو ، تو جستجو کرنی بھی آتی ہے
ادب مانع ہے ، ورنہ بارگاہ ناز میں جا کر
ہمیں ہر بات ان کے روبرو کرنی بھی آتی ہے
کہیں ایسا نہ ہو گھبرا کے وہ محفل سے اٹھ جائیں
کہ اس ناچیز کو کچھ ہاؤہو کرنی بھی آتی ہے
کسی کے مرتبے کا پاس ہے وقت سخن لازم
تمھیں واعظ کسی سے گفتگو کرنی بھی آتی ہے
بہا کر خون دل ، ارمان سب اپنے لہو کر کے
ترے کوچے کی مٹی سرخرو کرنی بھی آتی ہے
جناب شیخ سے ہے مختلف اپنی قدح نوشی
بحمد اللہ عباد بے وضو کرنی بھی آتی ہے
نصیر ! اپنوں کی عزت لوگ کرتے آئے ہیں ، لیکن
وہ ہم ہیں جن کو تعظیم عدو کرنی بھی آتی ہے
Khalid Roomi
Copy
اجڑ گیا ہے چمن ، لوگ دلفگار چلے
اجڑ گیا ہے چمن ، لوگ دلفگار چلے
کوئی صبا سے کہو اب نہ بار بار چلے
یہ کون سیر کا ارماں لئے چمن سے گیا
کہ باد صبح کے جھونکے بھی سوگوار چلے
یہ کیا کہ کوئی بھی رویا نہ یاد کر کے انھیں
وہ چند پھول جو حسن چمن نکھار چلے
نقاب اٹھا کہ پڑے اہل درد میں ہلچل
نظر ملا کہ چھری دل کے آر پار چلے
خوشا کہ در پہ ترے سر جھکا لیا ہم نے
یہ ایک قرض جبیں تھا جسے اتار چلے
کہے جو حق وہ کرے کیوں مآل حق سے گریز
کوئی چلے نہ چلے ہم تو سوئے دار چلے
اب اس کے بعد چمن جانے یا صبا جانے
گزارنے تھے ہمیں چار دن ، گزار چلے
پلٹ کے دیکھا نہ اک بار کارواں نے ہمیں
گرے پڑوں کی طرح ہم پس غبار چلے
جو ان کی یاد میں چمکے کبھی در مژگاں
وہ چار اشک مری عاقبت سنوار چلے
تمہاری بزم سے تاثیر اٹھ گئی شاید
بحال زار ہم آئے ، بحال زار چلے
غیرب شہر کی میت کے ساتھ روتا کون
مرا سلام ہو ان پر جو اشکبار چلے
قفس میں روز دکھاتا ہے آشیاں صیاد
نصیر ! آگ لگا دوں جو اختیار چلے
Khalid Roomi
Copy
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
ان کی خوشبو، کہاں سے آتی ہے
حد اوہام سے گزر کے کھلا
کوش یقینی ، گماں سے آتی ہے
جرات بندگی ء رب جلیل
بت شکن کی اذاں سے آتی ہے
ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر
دل میں عزم جواں سے آتی ہے
ان کی آواز میرے کانوں میں
آ رہی ہے ، جہاں سے آتی ہے
سر کو توفیق سجدہ کرنے کی
یار کے آستاں سے آتی ہے
آدمیت وہاں نہیں ہوتی
کبر کی بو جہاں سے آتی ہے
وقت کیسا قیامتی ہے آج
دھوپ اب سائباں سے آتی ہے
رات پڑتے ہی کچھ نہیں کھلتا
یاد جاناں کہاں سے آتی ہے
آدمی میں جمالیاتی حس
قربت مہ وشاں سے آتی ہے
دو قدم چل کے تم نہیں آتے
چاندنی آسماں سے آتی ہے
زندگی میں نصیر ! آسانی
ترک سود و زیاں سے آتی ہے
یاد فن کے اساتذہ کی نصیر
تیرے طرز بیاں سے آتی ہے
Khalid Roomi
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets