Poetries by maria rehmani
ان حکمرانوں کا ذرا دیکھو تو عالم درندگی ان حکمرانوں کا ذرا دیکھو تو عالم درندگی
خون چوستے ہیں اور اسے کہتے ہیں بندگی
نفس نفس مر رہا ہے احساس زیاں سے
اب کہاں جاں ہے دئیے میں کہ دے روشنی
مار ہی تو دیا ہے گردش افلاک نے انسان کو
خوشی ملے بھی تو نہیں اس میں چاشنی
حالات نے دل بدل دیا خدا دل سے گیا نہیں
اس امیری سے تو اچھا ہے غم مفلسی
محبت چاند ندیا کی باتیں تم کرتے ہو
ان چہروں پہ بھی دیکھو چاند سی افسردگی
کچھ کہتے نہیں تو ان کو بے زباں نہ سمجھو
رکھتے ہیں مفلس لوگ بھی انا آہنی
گزار مفلس بھی لیتے ہیں دھواں دھواں سی زندگی
زندگی صرف سانس لینا ہے تو نہیں یہ زندگی
مفلس بھی زندگی سے منہ موڑ کر چل دیا
چلے تم بھی جائو گے اوڑھ کر موت کی اوڑھنی Maria Rehmani
خون چوستے ہیں اور اسے کہتے ہیں بندگی
نفس نفس مر رہا ہے احساس زیاں سے
اب کہاں جاں ہے دئیے میں کہ دے روشنی
مار ہی تو دیا ہے گردش افلاک نے انسان کو
خوشی ملے بھی تو نہیں اس میں چاشنی
حالات نے دل بدل دیا خدا دل سے گیا نہیں
اس امیری سے تو اچھا ہے غم مفلسی
محبت چاند ندیا کی باتیں تم کرتے ہو
ان چہروں پہ بھی دیکھو چاند سی افسردگی
کچھ کہتے نہیں تو ان کو بے زباں نہ سمجھو
رکھتے ہیں مفلس لوگ بھی انا آہنی
گزار مفلس بھی لیتے ہیں دھواں دھواں سی زندگی
زندگی صرف سانس لینا ہے تو نہیں یہ زندگی
مفلس بھی زندگی سے منہ موڑ کر چل دیا
چلے تم بھی جائو گے اوڑھ کر موت کی اوڑھنی Maria Rehmani
میرے ہمسفر میرے ہمسفر میرے ہم خبر
نئے سال کی طرحمیرے دل میں بھی
بے قرار موسم اترا ہے
ہجر کے خوف سے
تیری یاد کے پنچھی سہمے ہیں
تیرا ہی بس خیال ہے
میرے ویراں اجالوں میں
لپٹ جاتی ہیں احساس بن کر
تیری یادیں اداس راتوں میں
چل پڑا ہے دل میرا
تجھے ڈھونڈنے کے سفر میں
میرے ہم خبر میرے ہمسفر
میں تجھ کو ڈھونڈ لوں ،،،
تو کس نگر؟
اس راہ میں ،،
جس پہ کبھی ہم چلے نہیں
ٹھہر جائوں اس موڑ پر،،،
جہاں کبھی تم رکے نہیں
تجھ کو ڈھونڈ لوں تو کس طرح
میں کس شہر
یا پھر اس درد میں
ابھی جو مجھ کو ملا نہیں
٤میں سفر کروں تو کس قدر
میرے ہمسفر میرے ہم خبر Maria Rehmani
نئے سال کی طرحمیرے دل میں بھی
بے قرار موسم اترا ہے
ہجر کے خوف سے
تیری یاد کے پنچھی سہمے ہیں
تیرا ہی بس خیال ہے
میرے ویراں اجالوں میں
لپٹ جاتی ہیں احساس بن کر
تیری یادیں اداس راتوں میں
چل پڑا ہے دل میرا
تجھے ڈھونڈنے کے سفر میں
میرے ہم خبر میرے ہمسفر
میں تجھ کو ڈھونڈ لوں ،،،
تو کس نگر؟
اس راہ میں ،،
جس پہ کبھی ہم چلے نہیں
ٹھہر جائوں اس موڑ پر،،،
جہاں کبھی تم رکے نہیں
تجھ کو ڈھونڈ لوں تو کس طرح
میں کس شہر
یا پھر اس درد میں
ابھی جو مجھ کو ملا نہیں
٤میں سفر کروں تو کس قدر
میرے ہمسفر میرے ہم خبر Maria Rehmani
محبت آوارہ پنچھی ہی تو ہے محبت آوارہ پنچھی ہی تو ہے
جہ ٹھہرا رہے تو دل کا شجر آباد
جو اڑ جائے تو بڑا ویران
محبت مسافر ہی تو ہے
جو مل جائے تو دل کی گلیاں شادمان
جو کھو جائے تو بڑی سنسان
محبت تتلی ہی تو ہے
جو پھولوں کے اس نگر کبھی اس نگر
جس سے ہر خوشبو ہے مہکی مہکی
ہر پھول ہے اجلا اجلا
جو نہ ہو تو ہر خوشبو ہے بے خوشبو
ہر پھول ہے افسردہ افسردہ
محبت احساس ہی تو ہے
جس سے بنا ہے ہر رشتہ مضبوط
جو نہ ہو تو
ہر رشتہ ہے بے اماں بے یقیں
محبت سفر ہی تو ہے
جس سے قائم ہے مسافتوں کی گردش
جو نہ ہو تو
ہر رستہ ہے کھویا ہوا
ہر منزل ہے لا حاصل
محبت سانس ہی تو ہے
جو چلے تو زندگی
جو رک جائے تو
کچھ بھی نہیں Maria Rehmani
جہ ٹھہرا رہے تو دل کا شجر آباد
جو اڑ جائے تو بڑا ویران
محبت مسافر ہی تو ہے
جو مل جائے تو دل کی گلیاں شادمان
جو کھو جائے تو بڑی سنسان
محبت تتلی ہی تو ہے
جو پھولوں کے اس نگر کبھی اس نگر
جس سے ہر خوشبو ہے مہکی مہکی
ہر پھول ہے اجلا اجلا
جو نہ ہو تو ہر خوشبو ہے بے خوشبو
ہر پھول ہے افسردہ افسردہ
محبت احساس ہی تو ہے
جس سے بنا ہے ہر رشتہ مضبوط
جو نہ ہو تو
ہر رشتہ ہے بے اماں بے یقیں
محبت سفر ہی تو ہے
جس سے قائم ہے مسافتوں کی گردش
جو نہ ہو تو
ہر رستہ ہے کھویا ہوا
ہر منزل ہے لا حاصل
محبت سانس ہی تو ہے
جو چلے تو زندگی
جو رک جائے تو
کچھ بھی نہیں Maria Rehmani
رات کی خاموش سنسناتی ہوائوں سے ڈر لگتا ہے رات کی خاموش سنسناتی ہوائوں سے ڈر لگتا ہے
تنہا چلوں گی مجھے قافلوں سے ڈر لگتا ہے
ضبط کا بندھن ٹوٹے اور کہیں تم بھی نہ بہ جاؤ
اپنے ہی چھلکتے ہئوے آنسئو ؤں سے ڈر لگتا ہے
اک چاند اکیلا اک میں تنہا ہم دونوں کا ساتھ ہے
جب چاند نہ نکلے تو تنہا رات سے ڈر لگتا ہے
پاگل پن کی حد آخر کو نہ چھو جائوں کہیں
مجھ کو تو خوابوں کی پناہوں سے ڈر لگتا ہے
مل ہی جاتے ہیں تاریک رستوں میں مسافر
مجھ کو تو روشن راہوں سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اطمینان ہے کہ میرے لب نہ ہلیں گے
بس اپنے دل کی صدائوں سے ڈر لگتا ہے
کہیں میرے رب کو برا ہی نہ لگ جائے
تیرا نام لیتی ہوئی سانسوں سے ڈر لگتا ہے Maria Rehmani
تنہا چلوں گی مجھے قافلوں سے ڈر لگتا ہے
ضبط کا بندھن ٹوٹے اور کہیں تم بھی نہ بہ جاؤ
اپنے ہی چھلکتے ہئوے آنسئو ؤں سے ڈر لگتا ہے
اک چاند اکیلا اک میں تنہا ہم دونوں کا ساتھ ہے
جب چاند نہ نکلے تو تنہا رات سے ڈر لگتا ہے
پاگل پن کی حد آخر کو نہ چھو جائوں کہیں
مجھ کو تو خوابوں کی پناہوں سے ڈر لگتا ہے
مل ہی جاتے ہیں تاریک رستوں میں مسافر
مجھ کو تو روشن راہوں سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اطمینان ہے کہ میرے لب نہ ہلیں گے
بس اپنے دل کی صدائوں سے ڈر لگتا ہے
کہیں میرے رب کو برا ہی نہ لگ جائے
تیرا نام لیتی ہوئی سانسوں سے ڈر لگتا ہے Maria Rehmani
تحریر کر رہی ہوں دیبابچہ حیات میں لفظوں کے گلاب سارے تحریر کر رہی ہوں دیبابچہ حیات میں لفظوں کے گلاب سارے
کھل جائیں گے تجھ پہ بھی باب سارے وہ نصاب سارے
گماں کے پنچھی اڑیں گے جب تیرے خیال کی منڈیر پر
جاگتی آنکھوں میں پھریں گے در بدر وہ خواب سارے
میں ہی نہ تھی اپنی زندگی کے دلچسپ امتحان میں
اس کے تھے سوال سارے اسی کے تھے جواب سارے
مجھ سائل محبت کو یوں مجروح نہ کر کہ اک دن
تیرے دل کی مسند پہ بیٹھ کر لوں گی حساب سارے
کچھ پہلے ہی پر خاش تھی ان کو ہماری شدتوں سے
اور ہم بھی بھول گئے دیکھ کر ان کو آداب سارے
راہ گیر ہے کوئی آوارہ سا مسافتوں کی گرد سے اٹا ہوا
چلتے چلتے لٹ گیا تو جان جائے گا راہوں کے سراب سارے
تجھے بھولنے کی خاطر میں بھٹک گیا جہاں جہاں جانے کہاں کہاں
وہ گلی گلی وہ شہر شہر تھے ہجر کے زیر آب سارے
لپٹ جائیں گی گفتگو سے وہ تنہا تنہا سی خاموشیاں
دل میں اتریں گے جو آگہی کے عذاب سارے Maria Rehmani
کھل جائیں گے تجھ پہ بھی باب سارے وہ نصاب سارے
گماں کے پنچھی اڑیں گے جب تیرے خیال کی منڈیر پر
جاگتی آنکھوں میں پھریں گے در بدر وہ خواب سارے
میں ہی نہ تھی اپنی زندگی کے دلچسپ امتحان میں
اس کے تھے سوال سارے اسی کے تھے جواب سارے
مجھ سائل محبت کو یوں مجروح نہ کر کہ اک دن
تیرے دل کی مسند پہ بیٹھ کر لوں گی حساب سارے
کچھ پہلے ہی پر خاش تھی ان کو ہماری شدتوں سے
اور ہم بھی بھول گئے دیکھ کر ان کو آداب سارے
راہ گیر ہے کوئی آوارہ سا مسافتوں کی گرد سے اٹا ہوا
چلتے چلتے لٹ گیا تو جان جائے گا راہوں کے سراب سارے
تجھے بھولنے کی خاطر میں بھٹک گیا جہاں جہاں جانے کہاں کہاں
وہ گلی گلی وہ شہر شہر تھے ہجر کے زیر آب سارے
لپٹ جائیں گی گفتگو سے وہ تنہا تنہا سی خاموشیاں
دل میں اتریں گے جو آگہی کے عذاب سارے Maria Rehmani
مجھے نیند نہیں آتی تیرے سنگ جو بیت گئے دن
کیا خوب تھے جاناں
معلوم ہے مجھ کو
وقت ہجر بھی لازم ہے
لیکن
تجھے کھو دینے کا حوصلہ نہیں قائم
اٹل ہے یہ
کچھ دنوں کچھ لمحوں میں بچھڑ جائیّں ہم
محبتوں کا کسے موڑ پہ مل جانا
بہت ہی دیر تک ساتھ رہنا
چلتے چلتے بہت ہی خاموشی سے کھو جانا
یہ زندگی کی ریت پرانی ہے
میرے پہلو میں تیرا سونا
وہ تیرے ہاتھوں کو بہت ہی زور سے تھامے ہوّئے رکھنا
سنو
مجھے بچھڑ جانے کا ڈر سا رہتا ہے
معلوم ہے مجھ کو
ہم میں شام ہجر آنے والی ہے
اور اسی ہجر کے ڈر سے
مجھے اب نیند نہیں آتی
تجھے کھو دینے کے ڈر سے
مجھے اب نیند نہیں آتی Maria Rehmani
کیا خوب تھے جاناں
معلوم ہے مجھ کو
وقت ہجر بھی لازم ہے
لیکن
تجھے کھو دینے کا حوصلہ نہیں قائم
اٹل ہے یہ
کچھ دنوں کچھ لمحوں میں بچھڑ جائیّں ہم
محبتوں کا کسے موڑ پہ مل جانا
بہت ہی دیر تک ساتھ رہنا
چلتے چلتے بہت ہی خاموشی سے کھو جانا
یہ زندگی کی ریت پرانی ہے
میرے پہلو میں تیرا سونا
وہ تیرے ہاتھوں کو بہت ہی زور سے تھامے ہوّئے رکھنا
سنو
مجھے بچھڑ جانے کا ڈر سا رہتا ہے
معلوم ہے مجھ کو
ہم میں شام ہجر آنے والی ہے
اور اسی ہجر کے ڈر سے
مجھے اب نیند نہیں آتی
تجھے کھو دینے کے ڈر سے
مجھے اب نیند نہیں آتی Maria Rehmani
اپنا چہرہ اترا ہوا دیکھا ہے اپنا چہرہ اترا ہوا دیکھا ہے
میں نے تیرے بنا گھر آ کے دیکھا ہے
لڑے ہیں بہت روٹی کے لقمے میرے خلق سے
میں نے تیرے بنا کھانا کھا کے دیکھا ہے
مجھے آج دیکھائی نہیں دی کہیں بھی بے ترتیبی
تیرے کپڑے میں نے با رہا بکھیر کر دیکھا ہے
مل جاےؑ تھوڑی سی خوشبو تیری
میں نے تیرے تکیے سے لپٹ کر دیکھا ہے
ہوا معلوم تجھ سے محبت ہے کتنی
جو آج آنکھوں میں تڑپ کا پانی دیکھا ہے Maria Rehmani
میں نے تیرے بنا گھر آ کے دیکھا ہے
لڑے ہیں بہت روٹی کے لقمے میرے خلق سے
میں نے تیرے بنا کھانا کھا کے دیکھا ہے
مجھے آج دیکھائی نہیں دی کہیں بھی بے ترتیبی
تیرے کپڑے میں نے با رہا بکھیر کر دیکھا ہے
مل جاےؑ تھوڑی سی خوشبو تیری
میں نے تیرے تکیے سے لپٹ کر دیکھا ہے
ہوا معلوم تجھ سے محبت ہے کتنی
جو آج آنکھوں میں تڑپ کا پانی دیکھا ہے Maria Rehmani
اس یقین سے تو غموں کو دے بھلا اس یقین سے تو غموں کو دے بھلا
کہ امید کی ابھی باقی ہے گھٹا
میرے بجھے ہوّے تاریک لہجے سے پریشان نہ ہو
نہیں ہوں تجھ سے ہو ں میں خود سے خفا
دعاٰیٰں دیتے ہیں رات کو صحرا بھی
اے برستی ہویّ شبنم تیرا ہو بھلا
شمع تھی ،میں چراغ تھی زندگی کا
زندگی۔۔ تیرے کج ادایّیوں نے مجھے دیا گنوا
Maria Rehmani
کہ امید کی ابھی باقی ہے گھٹا
میرے بجھے ہوّے تاریک لہجے سے پریشان نہ ہو
نہیں ہوں تجھ سے ہو ں میں خود سے خفا
دعاٰیٰں دیتے ہیں رات کو صحرا بھی
اے برستی ہویّ شبنم تیرا ہو بھلا
شمع تھی ،میں چراغ تھی زندگی کا
زندگی۔۔ تیرے کج ادایّیوں نے مجھے دیا گنوا
Maria Rehmani
اسی نگر کی اک چڑیا ہے سہمی سہمی رہتی ہے
چاہتوں کے دیس میں
نفرتوں ک بھیس میں
وہ اڑ نہیں سکتی
ایسا لوگ کہتے ہیں
مگر
لوگ کیونکر جانیں گےچاہتوں کے دیس میں
نفرتوں کے بھیس میں
کیوں وہ لپٹی رہتی ہے
دور فلک تک اڑنے کا جو شوق تھا
کہیں حادثوں میں ہی کٹ گیا
محبتوں بھا جو آشیاں تھا
کہیں حادثوں کی زد میں بہ گیا
وہ زندگی جو اس نے جینا تھی
کسی ایک پل میں ہی کٹ گئی
جو شوق تھا اس کا اڑنے کا
کہیں دور آسمان میں ہی کھو گیا
ورنہ
وہ اسی نگر کی چڑیا تھی maria rehmani
چاہتوں کے دیس میں
نفرتوں ک بھیس میں
وہ اڑ نہیں سکتی
ایسا لوگ کہتے ہیں
مگر
لوگ کیونکر جانیں گےچاہتوں کے دیس میں
نفرتوں کے بھیس میں
کیوں وہ لپٹی رہتی ہے
دور فلک تک اڑنے کا جو شوق تھا
کہیں حادثوں میں ہی کٹ گیا
محبتوں بھا جو آشیاں تھا
کہیں حادثوں کی زد میں بہ گیا
وہ زندگی جو اس نے جینا تھی
کسی ایک پل میں ہی کٹ گئی
جو شوق تھا اس کا اڑنے کا
کہیں دور آسمان میں ہی کھو گیا
ورنہ
وہ اسی نگر کی چڑیا تھی maria rehmani
میر ے دم سے ہو اجالا مجھے یہ ہے کمال کرنا میر ے دم سے ہو اجالا مجھے یہ ہے کمال کرنا
تیرے تاریک زدہ شہر کو شہر جمال کرنا
میری طلب وفا پہ فقط اس نے یہ کہا
ملی سانسوں سے وفا تو پھر سوال کرنا
بہت کہا تھا گیت ،ندیا،ساگر ہی میں رہو
اب گزر چکے ہو حد سے تو کیا ملال کرنا
کہا میں نے ! میں ماضی ہوں کسی اور کی زندگی کا
تم ئوں کرو مجھے اپنی زندگی کا حال کرنا maria rehmani
تیرے تاریک زدہ شہر کو شہر جمال کرنا
میری طلب وفا پہ فقط اس نے یہ کہا
ملی سانسوں سے وفا تو پھر سوال کرنا
بہت کہا تھا گیت ،ندیا،ساگر ہی میں رہو
اب گزر چکے ہو حد سے تو کیا ملال کرنا
کہا میں نے ! میں ماضی ہوں کسی اور کی زندگی کا
تم ئوں کرو مجھے اپنی زندگی کا حال کرنا maria rehmani