Add Poetry

Poetries by Mona Shehzad

رشتہ دوستی میری ساری دوستوں کے نام۔
یومِ الست کی بات ہے
اقرار سبھی جب کر چکے تھے
عہد بھی پکے ہو چکے تھے
پھر انہی توحید لمحوں میں
روح میری نے
سہمے، سہمے، جھجھکتے لہجے
یہ جھُک کے اپنے کریم رب سے
کہا کہ مالک! نواز مجھ کو
طویل، تاریک کٹھن سفر میں
حیات جس کا ہے نام رکھا
اک ایسا انمول، پیارا رشتہ
"دوستی" ہے نام جس کا
یہ سُن کے ہرسُو سکوت تھا چھایا
جمود طاری تھا ہر ایک شے پر
حیراں ملائک یہ سوچتے تھے
یہ روح سزا کی ہے مستحق اب
رحیم رب کو جو پیار آیا
تومیری جانب
اک رحمتوں کا حصار آیا
یہ فرمان ملائک کو ہوا یکایک
" وفا کی مٹی کو گُوندھ رکھو
پھر ملاوچاہت کا عود و عنبر
بے ریائی اُنڈیلواس میں
کرو بے لوث وفاوں کا عرق شامل
یک جان ہوں جب سبھی یہ اجزا
تو ہررُوحِ انساں میں کر دو شامل
یہ بنیاد تھی رشتہء دوستی کی
رشتوں کے اس ہجوم میں مونا
میری خوش نصیبی کہ کریم رب نے
دوستی کے کتنے مہرباں ستارے
میرے آسمانِ زندگی پہ ضوفشاں کیئے ہیں
تو اے مہرو وفا کی مٹی میں گُندھے میرے دوستو
یہ نظم میری، تُمہارے نام
کہ محبتوں نے تمہاری مجھے مالا مال کیا
اوراس دوستی نے
میری ہستی کو بے مثال کیا
Mona Shehzad
ساتھی میرے ساتھی میرے
آؤ ۔۔۔کچھ اور دیر میرا ساتھ نبھاؤ
ساحلِ زندگی پر چند قدم اور میرے سنگ ملاؤ
ہجر کی تیز ، سرخ آندھی چل پڑی ہے
اور میری ان یتیم و بے کس تنہایئوں میں
بیوہ ماں کی طرح بین کرتی، پاگل ہوائیں بولتی ہیں
میں ساکت و جامد کھڑی ہوئی
خاموش لب بھینچے تُجھے دیکھتی ہوں
اور۔۔۔۔ سوچتی ہوں
کاش!!! ایسا ہو
تُو پڑھ سکے میری سوچ کو
ہیں بچیں اب فقد چند مستعار سانسیں میری
نظر میں بھی ہیں کچھ عجب سی دھندلاہٹیں
ضرب پڑچکی ہے نقارہ کوچ پر
عزرائیل نے جکڑ رکھی ہیں میری یہ بانہیں
میں حد سے زیادہ مجبور ہوں
تم تو سمجھ جاؤ ان مجبوریوں کو
چلو اس بہتے وقت کو " امر" بناؤ
ساتھ میرے چند اور ساعتیں بتاؤ
آج پھر سنگ میرے تارے گنواؤ
ہے اب میرا سفر "مجاز" سے" حقیقی" کی جانب
ایک الوداعی بوسہ
میرے ماتھے پر ثبت کرو
مجھے اپنی اس "محبت" سے آزاد کرو
میری مٹھیوں میں ہیں بہت سی یادوں کے جگنو
کئی رنگ دار تتلیوں کے رنگ
مجھے ان تمام یادوں سے آزاد کرو
ایک بار مٹھی کھول کر مجھے اڑ جانے دو
ساتھی میرے
بس اتنا ہی تمھارا ہمارا ساتھ تھا
چلو اب تم واپس لوٹ جاؤ
ڈھلتے سورج کی نارنجی روشنی میں
میں بھی لوٹ جاتی ہوں
افق کے اس پار
دوبارہ ملنے کے لئے
ایک ventilator پر سانس لیتی لڑکی کی آخری خواہش ۔
Mona Shehzad
قیمت سچ آج کل الیکشن کی بحث ہو یا گھروں میں اختلاف رائے ۔ہر جگہ سچے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ جھوٹ اس مہارت سے بولا جاتا ہے کہ سچے اور جھوٹے کا امتیاز مشکل ہے۔ میرا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے ۔یہ صرف ایک سوال ہے جو میرے ذہن میں اکثر آتا ہے۔
سنو! ہوجاؤ تیار کہ بولا ہے
آج سچ تم نے
تھے جو رفیق اب تک تمھارے
گھڑی میں بن گئے خون کے پیاسے
یہ کاٹ ڈالیں ٹکڑوں میں
اگر ان کا بس جو چلے
اس لئے تو کہتی ہوں
سنبھل کر تم ذرا چلو
ہے نیلام سچ کا
یہ بار بار ہوتا ہے
یہ ہوتا ہی آیا ہے
یہ الگ بات ہے کہ پہلی بار کوئی بول پایا ہے
پیارے تو سچ بول کر رسوا ہوا
تو اس پر حیراں کیوں ہوتا ہے؟
یہاں عقل کے پاسبانوں کی کس کو بھلا ضرورت ہے؟
اس ملت کو بس اب لٹیروں کی ہی عادت ہے
وہ کہتے ہیں "جو کھاتا ہے وہ لگاتا بھی تو ہے"
ارے نادانوں! کیا رشوت کو جائز قرار دینے کا ارادہ ہے؟
قرآن و حدیث کی رسی کو چھوڑ دیا ہے تم نے
جہالت کو گلے کا ہار کرلیا تم نے
وقت نازک آن پڑا ہے ملت پر
مگر یہاں تو گالیوں اور تہمتوں کے مقابلے در مقابلے ہیں
دامن پھیلایا ہے اب دعا کے لئے
مولا! پاسبان عطا کردے اب میرے وطن کو
سبز کردے میری ارض پاک کو
ہمیں محبت، پیار اور اخلاص سے مالامال کردے
Mona shehzad.
نیلام عام الیکشن کی آمد ہو یا عام زندگی کے معاملات ۔ہم بطور قوم کس منزل کے مسافر بن گئے ہیں؟
اگر کسی کا دل دکھے تو پیشگی معذرت ۔
"نیلام عام"
اک روز میں گزری کوچہ وطن سے
نیلامی لگ رہی تھی کسی کی وہاں۔
میں بھی بصد اشتیاق رک گئی
طلب تھی کہ دیکھوں
کون کون ہے خریدار آج یہاں؟
بک رہی تھی "محبت" بہت سستے میں
اس لئے تو مجمع تھا بے شمار
بولی شروع کی تھی" ایمانداری " سے سب نے
کہتے ہیں لوگ "قیمت" معین ہے ہر شے کی یہاں
لو ہوگئی نیلام" ایمانداری" وہاں
اب گھیر لیا تھا سب نے "خودداری" کو
لو بڑے سستے میں ہوگیا سودا مکمل وہاں
اب کھڑا تھا "ایمان " ڈرا سہما ہوا
لو اس کو تو لوٹ ہی لیا اپنوں نے مفت میں ہی بارہا بار
اب اور کیا لکھوں؟
ایک نظر جو مجمع پر ڈالی
کہ دیکھوں یہ کن کا جم غفیر ہے ؟
نکلے اپنے ہی دونوں
کیا بیوپاری؟
کیا خریدار ؟
پھر روئی مونا زار و زار
لٹی میری" مادر وطن"
میرے اپنے "پیاروں " کے ہاتھ۔
بس پھر قرطاس سیاہ ہوتی گئی
میری آنکھوں سے ساون بھادوں برستی رہی
یوں ہی رات بیتتی گئی
بیتتی گئی
بیتتی گئی
میں یونہی چلتی گئی
چلتی گئی
چلتی گئی
Mona Shehzad
اک آرزو "اک آرزو " ( ہدیہ عقیدت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر )
ایک رات جو مسجد نبوی میں آئے۔بس کچھ خیال اس حوالے سے پیش خدمت ہے
راندہ درگاہ ہوں میں
دھتکاری ہوئی ہوں میں
در در سے مایوس لوٹائی گئی ہوں میں
گزر گئئ زیست دنیا کی چاہ میں
ہے اب بھی دامن خالی، دل خالی،آنکھ خالی
میعاد میری گھٹتی جاتی ہے روز بروز
اس لئے تو
تھام لیا ہے میں نے اب کاسہ گدائی
اب ہے شہر مدینہ اور میں صحرا نورد
رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں ان کے کرم کی سوالی ہوں میں
ہوجائے اک نظر ان کی جو مجھ پر بھی
اسی آس میں تو مدینے کو آئی ہوں میں
آقا سلام قبول کیجئے اس کنیز کا
تعارف کیا دوں اپنا بس
" کنیز بنت کنیز ہوں میں۔"
رکھ دیجئے دست شفقت اس لاچار کے سر پر بھی
اسی آس میں تو دن گزارے جارہی ہوں میں
سنا ہے خالی کبھی کوئی گیا نہیں دربار رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے
واسطہ دیتی ہوں میں بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ اور ان کے لاڈلوں کا
بھر دیجئے سرور کونین جھولی اس غریب کی
لکھے ہیں یہ چند لفظ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ثنا میں
سرور کونین نذرانہ قبول کیجئے
اس باندی کا سلام قبول کیجئے
آقا سلام قبول کیجئے
Mona Shehzad
Famous Poets
View More Poets