Poetries by Saeed Akhter Rahi
یہ کس نے کہہ دیا کہ تجھکو طلاق ہے ہاں میرے ساتھ کیا حسین اتفاق ہے
وہ میرے شہر میں ہے لیکن فراق ہے
جو میری زندگی کی رفیق شریک ہے
معراج عشق میں وہ پہلی براق ہے
گر میں کسی وجہ سے تجھے حق نہ دے سکا
یہ کس نے کہہ دیا کہ تجھکو طلاق ہے
دنیا میں جتنے دل بھی دھڑکتے ہیں پیار میں
وہ بھی ہمارے پیار کا سیاق و سباق ہے
سچ ہے محبتوں کی بہاریں ہیں سوگوار
لیکن خزاں میں اب بھی وہی طمطمراق ہے
نازل ہوا ہے یہ بھی عذاب آسمان سے
ہر گھر میں دیکھتا ہوں بہت ہی نفاق ہے Saeed Akhter Rahi
وہ میرے شہر میں ہے لیکن فراق ہے
جو میری زندگی کی رفیق شریک ہے
معراج عشق میں وہ پہلی براق ہے
گر میں کسی وجہ سے تجھے حق نہ دے سکا
یہ کس نے کہہ دیا کہ تجھکو طلاق ہے
دنیا میں جتنے دل بھی دھڑکتے ہیں پیار میں
وہ بھی ہمارے پیار کا سیاق و سباق ہے
سچ ہے محبتوں کی بہاریں ہیں سوگوار
لیکن خزاں میں اب بھی وہی طمطمراق ہے
نازل ہوا ہے یہ بھی عذاب آسمان سے
ہر گھر میں دیکھتا ہوں بہت ہی نفاق ہے Saeed Akhter Rahi
تم ڈرتی کیوں ہو تم اپنی محبت کے اقرار سے ڈرتی ہو
اور اس اقرار کے اظہار سے ڈرتی ہو
خود مسکرا کے پھول بچھاتی ہو راہ میں
لیکن میری آمد کی بہار سے ڈرتی ہو
کل جس کی طلب میں تم بدنام ہوئی تھیں
پھر آج کیوں اسی طلب گار سے ڈرتی ہو
تم ایک نے شہر میں نئی دکان سجا کر
اپنے ہی ایک پرانے خریدار سے ڈرتی ہو
وہ دیوار میں چنوائی گئی تھی انارکلی
اور تم ہو کہ سایہ دیوار سے ڈرتی ہو Saeed Akhter Rahi
اور اس اقرار کے اظہار سے ڈرتی ہو
خود مسکرا کے پھول بچھاتی ہو راہ میں
لیکن میری آمد کی بہار سے ڈرتی ہو
کل جس کی طلب میں تم بدنام ہوئی تھیں
پھر آج کیوں اسی طلب گار سے ڈرتی ہو
تم ایک نے شہر میں نئی دکان سجا کر
اپنے ہی ایک پرانے خریدار سے ڈرتی ہو
وہ دیوار میں چنوائی گئی تھی انارکلی
اور تم ہو کہ سایہ دیوار سے ڈرتی ہو Saeed Akhter Rahi
عشق کے لمحات کتنے حسین لمحے تھے عشق کے لمحات میں
آگ جسموں میں لگی تھی موسم برسات میں
چپ چپ قریب آکر جسموں کو گدگدا کر
اس قدر مصروف تھے ہم بےخوف جذبات میں
بجتی ہے جب بھی میرے اس فون کی یہ گھنٹی
کیا کہوں کیا ہو جاتا ہے مجھے ان لمحات میں
ہاں تیرے فون کا ہی رہتا گماں ہے ہر دم
یہ ایک ہے امید ہے میرے اس حیات میں
آؤ تمہیں بتاؤں کہ بے چین کتنا رہتا ہوں
کیا ڈھونڈتا رہتا ہوں میں آدھی آدھی رات میں
کچھ اس قدر تھا شور کہ احساس یہ ہوا تھا
صرف میرے پیار کے ہیں چرچے کائنات میں Saeed Akhter Rahi
آگ جسموں میں لگی تھی موسم برسات میں
چپ چپ قریب آکر جسموں کو گدگدا کر
اس قدر مصروف تھے ہم بےخوف جذبات میں
بجتی ہے جب بھی میرے اس فون کی یہ گھنٹی
کیا کہوں کیا ہو جاتا ہے مجھے ان لمحات میں
ہاں تیرے فون کا ہی رہتا گماں ہے ہر دم
یہ ایک ہے امید ہے میرے اس حیات میں
آؤ تمہیں بتاؤں کہ بے چین کتنا رہتا ہوں
کیا ڈھونڈتا رہتا ہوں میں آدھی آدھی رات میں
کچھ اس قدر تھا شور کہ احساس یہ ہوا تھا
صرف میرے پیار کے ہیں چرچے کائنات میں Saeed Akhter Rahi
رانی وہاں راہی کی جھونپڑی نہیں ہوتی تیرے سانسوں کی جہاں گرمی نہیں ہوتی
موت ہوتی ہے وہاں زندگی نہیں ہوتی
ملنے آتی جہاں محل سے چل کر پیدل
رانی وہاں رانی کی اب جھونپڑی نہیں ہوتی
آؤ آکر دیکھ لو کیا ہال ہے بیمار کا
چراغ سحری سے تمہیں ہمدردی نہیں ہوتی
پیار کا کوئی فسل پھل پھول نہیں سکتا جہاں
بہت زرخیز اگر وفا کی مٹی نہیں ہوتی
جہاں دلوں میں ہو پیار معتبر اور محترم
اس بازار میں جنس وفا سستی نہیں ہوتی
دنیا میں ہے فریب کی جاناں بہت فراوانی
کبھی جھوٹی وفاؤں کی یہاں کمی نہیں ہوتی Saeed Akhter Rahi
موت ہوتی ہے وہاں زندگی نہیں ہوتی
ملنے آتی جہاں محل سے چل کر پیدل
رانی وہاں رانی کی اب جھونپڑی نہیں ہوتی
آؤ آکر دیکھ لو کیا ہال ہے بیمار کا
چراغ سحری سے تمہیں ہمدردی نہیں ہوتی
پیار کا کوئی فسل پھل پھول نہیں سکتا جہاں
بہت زرخیز اگر وفا کی مٹی نہیں ہوتی
جہاں دلوں میں ہو پیار معتبر اور محترم
اس بازار میں جنس وفا سستی نہیں ہوتی
دنیا میں ہے فریب کی جاناں بہت فراوانی
کبھی جھوٹی وفاؤں کی یہاں کمی نہیں ہوتی Saeed Akhter Rahi
آخری خواہش ہمارے پیار کا ایسا مظبوط بندھن ہوتا
چھوٹے سے گھر میں چھوٹا سا آنگن ہوتا
میں تیرے ماتھے پہ پیار سے بوسا دیتا
تیری پیشانی پہ جھومر کا وہ درشن ہوتا
ہم ایک لمبے سفر کے لیے ہمراہی بنے تھے
کاش رنگپور ہم دونوں کا چمن ہوتا
تیری تجویز تھی کہ ہم بھاگ کر شادی کرلیں
میں اگر مان جاتا تو تیرا ساجن ہوتا
یہ جانتا کہ آرزو ہے تجھے دولت و ثروت کی
رزق حرام سے میرا بھی گھر گلشن ہوتا
مرنے والے کی آخری خواہش یہ ہے
کاش میں تیرے ہی ہاتھوں دفن ہوتا Saeed Akhter Rahi
چھوٹے سے گھر میں چھوٹا سا آنگن ہوتا
میں تیرے ماتھے پہ پیار سے بوسا دیتا
تیری پیشانی پہ جھومر کا وہ درشن ہوتا
ہم ایک لمبے سفر کے لیے ہمراہی بنے تھے
کاش رنگپور ہم دونوں کا چمن ہوتا
تیری تجویز تھی کہ ہم بھاگ کر شادی کرلیں
میں اگر مان جاتا تو تیرا ساجن ہوتا
یہ جانتا کہ آرزو ہے تجھے دولت و ثروت کی
رزق حرام سے میرا بھی گھر گلشن ہوتا
مرنے والے کی آخری خواہش یہ ہے
کاش میں تیرے ہی ہاتھوں دفن ہوتا Saeed Akhter Rahi
آج ہوا تیز ہے تم دریا پار نہ کرنا آج ہوا تیز ہے
اور زلف نہیں لہرانا آج ہوا تیز ہے
اگر باتوں سے تمہارے پھول جھڑتے ہوں
تم گفتگو نہیں فرمانا آج ہوا تیز ہے
ممکن ہے ہواؤں آج گدگدی سی بھر جائے
خدارا نہ مسکرانا آج ہوا تیز ہے
کوئی پیغام اگر ہے تو ای میل ہی کر دو
آج پتنگ نہیں اڑانا آج ہوا تیز ہے
میری یادوں کے تم آنسو پونچھ کر آنچل
چھت پر نہیں سکھانا آج ہوا تیز ہے
جانے کہاں کہاں یہ اڑاتی پھرے ہمیں
میرے خوابوں میں نہ آنا آج ہوا تیز ہے
میرے قبر کا آج نشان بھی تو نہ ہوگا
ملک الموت نہ آنا آج ہوا تیز ہے Saeed Akhter Rahi
اور زلف نہیں لہرانا آج ہوا تیز ہے
اگر باتوں سے تمہارے پھول جھڑتے ہوں
تم گفتگو نہیں فرمانا آج ہوا تیز ہے
ممکن ہے ہواؤں آج گدگدی سی بھر جائے
خدارا نہ مسکرانا آج ہوا تیز ہے
کوئی پیغام اگر ہے تو ای میل ہی کر دو
آج پتنگ نہیں اڑانا آج ہوا تیز ہے
میری یادوں کے تم آنسو پونچھ کر آنچل
چھت پر نہیں سکھانا آج ہوا تیز ہے
جانے کہاں کہاں یہ اڑاتی پھرے ہمیں
میرے خوابوں میں نہ آنا آج ہوا تیز ہے
میرے قبر کا آج نشان بھی تو نہ ہوگا
ملک الموت نہ آنا آج ہوا تیز ہے Saeed Akhter Rahi
وہ ملا کرتی تھی ہر شب پہلے ملتی تھی جو بے وفا نہیں ملتی
شائد ہے وہ اس قدر خفا نہیں ملتی
ممکن ہے کہ نابینا کو یہ بھی خبر نہیں
لب دریا کبھی پانی کی صدا نہیں ملتی
اب کیا کہوں میں قصہ بے وفائی کا
میرے کتھا سے اس کی کتھا نہیں ملتی
باتوں کی تیری خوشبو ہوا لے اڑی کہاں؟
پوچھوں گا مگر باد صبا نہیں ملتی
ایماں مجھے روکے وہ جوانی نہیں رہی
کافر مجھے کھینچے وہ ادا نہیں ملتی Saeed Akhter Rahi
شائد ہے وہ اس قدر خفا نہیں ملتی
ممکن ہے کہ نابینا کو یہ بھی خبر نہیں
لب دریا کبھی پانی کی صدا نہیں ملتی
اب کیا کہوں میں قصہ بے وفائی کا
میرے کتھا سے اس کی کتھا نہیں ملتی
باتوں کی تیری خوشبو ہوا لے اڑی کہاں؟
پوچھوں گا مگر باد صبا نہیں ملتی
ایماں مجھے روکے وہ جوانی نہیں رہی
کافر مجھے کھینچے وہ ادا نہیں ملتی Saeed Akhter Rahi
وصل شب جو چوٹ لگی ہے مجھے تیری ٹھوکر تو نہیں
میں سنگ میل ہوں راستے کا پتھر تو نہیں
میں اٹھا کر تجھے لے آیا گھنے جنگل میں
اور پوچھا تھا اب کسی کا ڈر تو نہیں
وہ میری بانہوں کے گھیرے س نکل کر بولی
جان یہ جنگل ہے ہمارا گھر تو نہیں
رات آئی تو تاروں نے بھی جھانک لیا
پھر کانا پھوسی کیا اسکی یہ عمر تو نہیں
پھر جھیل کی سطح سے ہمیں جھانکنے لگے
تم نے پتھر اٹھا کر کہا یہ رہگزر تو نہیں Saeed Akhter Rahi
میں سنگ میل ہوں راستے کا پتھر تو نہیں
میں اٹھا کر تجھے لے آیا گھنے جنگل میں
اور پوچھا تھا اب کسی کا ڈر تو نہیں
وہ میری بانہوں کے گھیرے س نکل کر بولی
جان یہ جنگل ہے ہمارا گھر تو نہیں
رات آئی تو تاروں نے بھی جھانک لیا
پھر کانا پھوسی کیا اسکی یہ عمر تو نہیں
پھر جھیل کی سطح سے ہمیں جھانکنے لگے
تم نے پتھر اٹھا کر کہا یہ رہگزر تو نہیں Saeed Akhter Rahi