ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف
ہوجائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف
شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف
کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف
پہلےتھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں
آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف
دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی
شاید لِکھا ہے زیست کا انجام مختلف
تیرا تعلق ایسے وطن سے تھا کب خلش
جس کے ہر ایک شہر کا اِسلام مختلف