Add Poetry

Poetries by Shahzad Qais

حُور دُنیا میں ملی تھی ، پر مری مانے گا کون حُور دُنیا میں ملی تھی ، پر مری مانے گا کون
جنت اَپنے گھر میں ہی تھی ، پر مری مانے گا کون
غنچے اُڑتے پھر رہے تھے روشنی میں اَبر کی
چاندنی خوشبو بھری تھی ، پر مری مانے گا کون
خوشنما ، قوسِ قُزح تھی ، جگنوؤں کے جسم پر
تتلیوں میں روشنی تھی ، پر مری مانے گا کون
ریت کی برکھا میں دُھل کے ، کھِل اُٹھے تازہ گلاب
بارِشوں میں تشنگی تھی ، پر مری مانے گا کون
شَہرِ خاموشاں میں نِصفِ شَب کی سُوئیاں ملتے ہی
زِندگی ہی زِندگی تھی ، پر مری مانے گا کون
آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ، ایک ضِدّی دِل رُبا
اِس غزل پر مر مٹی تھی ، پر مری مانے گا کون
مُلک میں وُہ اَمن تھا کہ بادشہ کے حُکم پر
’’جُرم‘‘ کی گھنٹی بجی تھی ، پر مری مانے گا کون
آئینے سے جب ذِرا سا ، دُور ہٹ کے رو پڑے
عکس نے آواز دی تھی ، پر مری مانے گا کون
شاخ سے بچھڑی کلی پہ ، شبنمی قطرے نہ تھے
وُہ تو تتلی رو رہی تھی ، پر مری مانے گا کون
شک پرست اِحباب کو میں ، قیس گو یہ کہہ تو دُوں!
یہ غزل ’’کچھ‘‘ عام سی تھی ، پر مری مانے گا کون
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
محبت اِک سمندر ہے ، ذِرا سے دِل کے اَندر ہے محبت اِک سمندر ہے ، ذِرا سے دِل کے اَندر ہے
ذِرا سے دِل کے اَندر ہے مگر پورا سمندر ہے
محبت رات کی رانی کا ، ہلکا سرد جھونکا ہے
محبت تتلیوں کا ، گُل کو چھُو لینے کا منظر ہے
محبت باغباں کے ہاتھ کی مِٹّی کو کہتے ہیں
رُخِ گُل کے مطابق خاک یہ سونے سے بہتر ہے
جہانِ نو ، جسے محبوب کی آنکھوں کا حاصل ہو
فقیہہِ عشق کے فتوے کی رُو سے وُہ سکندر ہے
نہیں ترتیبِ آب و خاک و باد و آگ سے جیون
ظَہُورِ زِندگانی کو ، محبت اَصل عُنصر ہے
کوئی دُنیا میں نہ بھی ہو ، پہنچ میں ہے محبت کی
بدن سے ماوَرائی ہے ، محبت رُوح پرور ہے
محبت ہے رَمی شک پر ، محبت طوفِ محبوبی
صفا ، مروہ نے سمجھایا ، محبت حجِ اَکبر ہے
محبت جوئے شیرِ کُن ، محبت سلسبیلِ حق
محبت اَبرِ رَحمت ہے ، محبت حوضِ کوثر ہے
اَگر تم لوٹنا چاہو ، سفینہ اِس کو کر لینا
اَگر تم ڈُوبنا چاہو ، محبت اِک سمندر ہے
سنو شہزاد قیس آخر ، سبھی کچھ مٹنے والا ہے
مگر اِک ذات جو مشکِ محبت سے معطر ہے
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
کہا دھڑکن ، جگر ، سانسوں کو تم سے پیار ہے لیلیٰ کہا دَھڑکن ، جگر ، سانسوں کو تُم سے پیار ہے لیلیٰ
کہا اِن ’’اَدبی دَعوؤں‘‘ سے بہت بیزار ہے لیلیٰ
کہا سُنیے! ہمارا دِل یہیں پر آج رَکھا تھا
کہا لو کیا تمہارے دِل کی ’’ٹھیکے دار‘‘ ہے لیلیٰ
کہا مجنوں کی چاہت نے تمہیں لیلیٰ بنا ڈالا
کہا مجنوں جُنونی کی تو خود معمار ہے لیلیٰ
کہا مجنوں نگاہیں پھیر لے تو کیا کریں گی جی؟
کہا مجنوں نہ کر پائے تو پھر بے کار ہے لیلیٰ
کہا پر ملکۂ حُسنِ جہاں تو اور کوئی ہے
کہا پردہ نشیں ہیں ، وَرنہ تو سردار ہے لیلیٰ
کہا یہ ہجر کی راتیں مجھے کیوں بخش دیں صاحب
کہا ’’شاعر بنانے کو‘‘ ، بہت فنکار ہے لیلیٰ
کہا اِن زاہدوں کو ’’کچھ‘‘ رِعایَت عشق میں دیجے
کہا حوروں کا نہ سوچیں تو ’’کچھ‘‘ تیار ہے لیلیٰ
کہا تنہا ملو ناں ، ’’صرف‘‘ کچھ غزلیں سنانی ہیں
کہا ہم سب سمجھتے ہیں ، بہت ہشیار ہے لیلیٰ
کہا کوہِ ہَمالہ میں رَواں کر دُوں جو جُوئے شیر!
کہا وُہ شرطِ شیریں تھی ، کہیں دُشوار ہے لیلیٰ
کہا شمع ، پتنگے ، قیس ، لیلیٰ میں ستم گر کون؟
کہا شمع بھی نوری ، نور کا مینار ہے لیلیٰ
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
شکنجے ٹوٹ گئے ، ’’زخم‘‘ بدحواس ہوئے شِکنجے ٹُوٹ گئے ، ’’زَخم‘‘ بدحواس ہُوئے
سِتم کی حد ہے کہ اِہلِ سِتم اُداس ہُوئے
عُدو نے ایسا بہایا ، لہو کا سونامی
سفینے زِندہ دِلوں کے بھی ، غرقِ یاس ہُوئے
حساب کیجیے ، کتنا سِتم ہُوا ہو گا
کفن دَریدہ بدن ، زِندگی کی آس ہُوئے
کچھ ایسا مارا ہے شب خون ، اِبنِ صحرا نے
سمندَروں کے سَبُو پیاس ، پیاس ، پیاس ہُوئے
نجانے شیر کے بچے ، اُٹھا لیے کِس نے
یہ مُوئے شَہر جو ، جنگل کے آس پاس ہُوئے
خُدا پناہ! وُہ کڑوا خِطاب رات سُنا
کریلے نیم چڑھے ، باعثِ مِٹھاس ہُوئے
ہر ایک فیصلہ ، محفوظ کرنے والو سنو!
جھکے ترازُو ، شَبِ ظلم کی اَساس ہُوئے
گلابی غُنچوں کا موسم اُداس کرتا ہے
کچھ ایسے دِن تھے ، جب اُس گل سے رُوشناس ہُوئے
ہر ایک شخص کا ، سمجھوتہ اَپنے حال سے ہے
خوشی سے سانس اُکھڑنا تھا ، غم جو راس ہُوئے
قبائے زَخمِ بَدن ، اَوڑھ کر ہم اُٹھے قیس
جو شاد کام تھے ، مِحشَر میں بے لباس ہُوئے
شہزاد قیس کی کتاب "اِنقلاب" سے انتخاب
Shahzad Qais
رکو تو تم کو بتائیں وہ اتنے نازک ہیں رُکو تو تم کو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کہا طبیب نے ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بادلوں پہ کمر ’’سیدھی‘‘ رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
کلی سے پوچھ کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن کو دیکھ لیں بادل تو غسل ہو جائے
دَھنک سے خشک کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سیاہی شب کی ہے چشمِ غزال کو سُرمہ
حیا کا غازہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دو قدم چلیں پانی پہ ، دیکھ کر چھالے
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی جو چٹکے تو نازُک ترین ہاتھوں سے
وُہ دونوں کان چھپائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سریلی فاختہ کُوکے جو تین مُلک پرے
شکایت اُس کی لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہَوائی بوسہ دِیا پھول نے ، بنا ڈِمپل
اُجالے ، جسم دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گھپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گنگنائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سخن پہ پہرے بٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ زیورات کی تصویر ساتھ رَکھتے ہیں
یا گھر بلا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کبوتروں سے کراتے تھے بادشاہ جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بس اِس دلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شراب پینا کجا ، نام جام کا سن لیں
تو جھوم جھوم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ خوشبو لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گھروندے ریت سے ساحل پہ سب بناتے ہیں
وُہ بادلوں پہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جلا کے شمع وُہ جب غُسلِ آفتاب کریں
سفیدی رُخ پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکار کرنے کو جانا ہے ، کہتے جاتے ہیں
پکڑنے تتلی جو جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکاریوں میں اُنہیں بھی جو دیکھیں زَخمی شیر
تو مر تو شرم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُٹھا کے لاتے جو تتلی تو موچ آ جاتی
گھسیٹتے ہُوئے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی کو سونگھیں تو خوشبو سے پیٹ بھر جائے
مزید سونگھ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غلام چٹکی نہ سننے پہ مرتے مرتے کہیں
خدارا تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نکاح خوان کو بس ’’ایک‘‘ بار وَقتِ قُبول
جھکا کے پلکیں دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُتار دیتے ہیں بالائی ، سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزن کو سو کے گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وَزن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کل اَپنے سائے سے وُہ اِلتماس کرتے تھے
یہاں پہ رَش نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
تھکن سے چُور وُہ ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پری نے ہاتھ سے اَنگڑائی روک دی اُن کی
کہ آپ ٹوٹ نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل وُہ پڑھتے ہی یہ کہہ کے قیس رُوٹھ گئے
کہ نازُکی تو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
قلم کو باب تمنا پہ دھر کے دیکھتے ہیں قلم کو بابِ تمنا پہ دَھر کے دیکھتے ہیں
خُمِ فراز سے اِک جام بھر کے دیکھتے ہیں
سفر کے تاروں نے کیا کُوچ کا بتانا تھا
کہ وُہ تو پیروں کو رَشکِ قمر کے دیکھتے ہیں
ہنر ملا ہے جنہیں شاعری کا ، اُن کا نصیب
کہ ہم تو معجزے خونِ جگر کے دیکھتے ہیں
ہر ایک ذات میں اُس کی کوئی نشانی ہے
کرشمے حُسن میں رَب کے ہُنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس نے یوں اَنگڑائی لی کہ حسرت سے
پری جمال ، کمال اِک بشر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب وُہ کبھی نچلا لب چباتے ہیں
تو پھول پنکھڑی کو دُہرا کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے کروٹیں گنتا ہے چاند ، راتوں کو
کئی ستارے تو چھت پر اُتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چال پہ ہے آنکھ ، راج ہنسوں کی
غزال کُوچۂ جاں سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بوند جو پانی کی لب کو چھُو کے گری
شراب خانے اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رُوپ کا دَرپن ہے رَقص کرتا کنول
حسین غنچے اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے عید کا چاند اُن کی راہ تکتا ہے
خوشی کے دیپ ، قدم خوش نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بادَلوں پہ جب وُہ پاؤں دَھرتے ہیں
تو اَبر کو تو سمندر بپھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بس سے ہو باہر اَگر مسیحا کے
تو خاک قدموں کی تجویز کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے زینہ اُترتا ہے یوں وُہ مست غزال
کہ حرف چٹکلے زِیر و زَبر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایک تو چوری کی اِملی کھاتے ہیں
زَباں پہ لیموں کی پھر بوند دَھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینے سے خاصے بے تَکلُفّ ہیں
سو ہم بھی دُوسری جانب اُتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے فاختہ کے با اَدب ترانے پر
شجر رُکوع میں بھی دَم خم کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جگنو کوئی زُلف میں رہا شب بھر
ستارے نخرے اَب اُس مفت بر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مورنی شاگردِ خاص ہے اُن کی
سو مور رَقص اُسی مست گر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جان کنی مشغلہ ہے ملکہ کا
اِسی بہانے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دُھوپ میں بارِش ہے زُلف چہرے پر
خوشی سے اَبر اُسے ہر نگر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جل پری ، جلتی ہے اُن کے پیروں سے
گڑھے کو گالوں کے چکر بھنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب کبھی آزادۂ قبا ہو نگار
نظر جھکا کے قبا ، دیپ گھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے نُور کا ہالہ ہے بانکی نار پہ یوں
کہ دید خواہ تو بس اُس کو مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چُوڑیوں سے دِل کے تار بجتے ہیں
سنا ہے گھنگھرو کو نغمے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
حیا کی برق دَرخشاں ہے شوخ آنکھوں میں
جواہرات کرشمے گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مندروں میں اِس لیے نہیں جاتے
کہ بُت بھی سجدے ، مہا بُت کو کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دِیویاں اُس کی کنیزِ اَدنیٰ ہیں
خزینے پاؤں تلے خشک و تر کے دیکھتے ہیں
بتوں کا واسطہ دے کر پجاری پہنچے ہُوئے
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوخ ، خوشی سے جو کھلکھلا اُٹھے
طلائی جھرنے ہنسی کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کلی پہ بیٹھی کسی تتلی پر جھکا ہے کوئی
اُجالے جلوے کسی بے خبر کے دیکھتے ہیں
پکار اُٹھتے ہیں یہ نقل ہے حنا کی مری
جو نقش غور سے تتلی کے پر کے دیکھتے ہیں
بدن کی چاندنی کو دُھوپ جب لگاتے ہیں
قمر مریخ کے ، ہالے کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خوشبو کے تالاب میں نہا دھو کر
نسیمِ صبح کو تن زیب کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خواب اُنہیں اِس لئے نہیں آتے
کہ خواب سب ہی کسی اَعلیٰ تر کے دیکھتے ہیں
جو خواب دیکھتے بھی ہیں تو صرف شیش مَحَل
سو خود بھی جلوے رُخِ فتنہ گر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خوشبو کی بارِش ہے گُل بدن کا وُجود
گلاب راستے خوشبو کے گھر کے دیکھتے ہیں
لب اِتنے میٹھے کہ اَنگور اُن کو کھٹا کہیں
وُہ جب شراب کا اِک گھونٹ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شہد کی بوندوں کے چند پروانے
گلاس پر لگی سرخی پہ مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چاندنی سے وُہ حنا لگاتے ہیں
کلی چٹکنے کو پازیب کر کے دیکھتے ہیں
جو اُس کی ظاہری معصومیت پہ واریں دِل
تمام عمر ، ضرر ، بے ضرر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے غنچے کو بوسہ دِیا ہے خوش لب نے
تو ہم بھی وعدے سے اَپنے مکر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بوسے سے یہ کہہ کے جاں چھڑاتے ہیں
نہیں نہیں اَبھی سب پھول گھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے سامری بعد اَز ہزار جل تو جلال
طلائی بچھڑے کا دِل دان کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ہاتھ پہ جب تتلی وُہ بٹھاتے ہیں
عُقاب اَپنی قبائیں کُتر کے دیکھتے ہیں
حجاب زادی پہ خوشبو کا نُور اُترتا ہے
حریمِ حُسن ستارے سَحَر کے دیکھتے ہیں
وُہ جس پہ مرتا ہے آخر وُہ چیز کیا ہو گا
ہم اُس کے دِل میں کسی دِن اُتر کے دیکھتے ہیں
وُہ خواب ہے کہ فُسوں ، جن ، پری کہ جانِ جُنوں
سب اُس کے حُسن کو تھوڑا سا ڈَر کے دیکھتے ہیں
جلالِ حُسن پہ حیرت سے دَنگ اِہلِ سُخن
قلم زَمین پہ اِہلِ نظر کے دیکھتے ہیں
ہمیشہ زُعم سے اُس پر غزل شروع کی قیس !
ہمیشہ بے بسی پہ ختم کر کے دیکھتے ہیں
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
درد کا شہر بساتے ہوئے رو پڑتا ہوں دَرد کا شَہر بساتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
روز گھر لوٹ کے آتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
جانے کیا سوچ کے لے لیتا ہُوں تازہ گجرے
اور پھر پھینکنے جاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
جسم پہ چاقو سے ہنستے ہُوئے جو لکھا تھا
اَب تو وُہ نام دِکھاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
راہ تکتے ہُوئے دیکھوں جو کسی تنہا کو
جانے کیوں آس دِلاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
لوگ جب روگ کی تفصیل طلب کرتے ہیں
سخت اِک بات چھپاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
گرم تھی چوٹ تبھی لکھ سکا یہ غم کی بیاض
اَب تو اِک شعر سناتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
روز دِل کرتا ہے منہ موڑ لوں میں دُنیا سے
روز میں دِل کو مناتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
اِسمِ لیلیٰ کو فقط اِس لیے رَکھا مخفی
پھُوٹ کر نام بتاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
دُور جاتا ہو کوئی ، یار سبھی کہتے ہیں
صرف میں ہاتھ ہلاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
چند چپ چاپ سی یادوں کا ہے سایہ مجھ پر
قیس بارِش میں نہاتے ہُوئے رو پڑتا ہُوں
شہزاد قیس کی کتاب "دِسمبر کے بعد بھی" سے انتخاب
Shahzad Qais
ردیف ، قافیہ ، بندش ، خیال ، لفظ گری رَدیف ، قافیہ ، بندِش ، خیال ، لفظ گری
وُہ حُور ، زینہ اُترتے ہُوئے سکھانے لگی
کتاب ، باب ، غزل ، شعر ، بیت ، لفظ ، حُروف
خفیف رَقص سے دِل پر اُبھارے مست پری
کلام ، عَرُوض ، تغزل ، خیال ، ذوق ، جمال
بدن کے جام نے اَلفاظ کی صراحی بھری
سلیس ، شستہ ، مُرصع ، نفیس ، نرم ، رَواں
دَبا کے دانتوں میں آنچل ، غزل اُٹھائی گئی
قصیدہ ، شعر ، مسدس ، رُباعی ، نظم ، غزل
مہکتے ہونٹوں کی تفسیر ہے بھلی سے بھلی
مجاز ، قید ، معمہ ، شبیہ ، اِستقبال
کسی سے آنکھ ملانے میں اَدبیات پڑھی
قرینہ ، سَرقہ ، اِشارہ ، کِنایہ ، رَمز ، سوال
حیا سے جھکتی نگاہوں میں جھانکتے تھے سبھی
بیان ، علمِ معانی ، فصاحت ، علمِ بلاغ
بیان کر نہیں سکتے کسی کی ایک ہنسی
قیاس ، قید ، تناسب ، شبیہ ، سَجع ، نظیر
کلی کو چوما تو جیسے کلی ، کلی سے ملی
ترنم ، عرض ، مکرر ، سنائیے ، اِرشاد
کسی نے ’’سنیے‘‘ کہا ، بزم جھوم جھوم گئی
حُضُور ، قبلہ ، جناب ، آپ ، دیکھیے ، صاحب
کسی کی شان میں گویا لغت بنائی گئی
حریر ، اَطلس و کمخواب ، پنکھڑی ، ریشم
کسی کے پھول سے تلووں سے شاہ مات سبھی
گلاب ، عنبر و ریحان ، موتیا ، لوبان
کسی کی زُلفِ معطر میں سب کی خوشبو ملی
٭٭٭
کسی کے مرمریں آئینے میں نمایاں ہیں
گھٹا ، بہار ، دَھنک ، چاند ، پھول ، دیپ ، کلی
کسی کا غمزہ شرابوں سے چُور قوسِ قُزح
اَدا ، غُرُور ، جوانی ، سُرُور ، عِشوَہ گری
کسی کے شیریں لبوں سے اُدھار لیتے ہیں
مٹھاس ، شَہد ، رُطَب ، چینی ، قند ، مصری ڈَلی
کسی کے نور کو چندھیا کے دیکھیں حیرت سے
چراغ ، جگنو ، شرر ، آفتاب ، ’’پھول جھڑی‘‘
کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال ، مورنی ، موجیں ، نُجُوم ، اَبر ، گھڑی
کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی
کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارِش میں
لباس ، گجرے ، اُفق ، آنکھ ، زُلف ، ہونٹ ، ہنسی
کسی کا بھیگا بدن ، گُل کھلاتا ہے اَکثر
گلاب ، رانی ، کنول ، یاسمین ، چمپا کلی
بشرطِ ’’فال‘‘ کسی خال پر میں واروں گا
چمن ، پہاڑ ، دَمن ، دَشت ، جھیل ، خشکی ، تری
یہ جام چھلکا کہ آنچل بہار کا ڈَھلکا
شریر ، شوشہ ، شرارہ ، شباب ، شر ، شوخی
کسی کی تُرش رُوئی کا سبب یہی تو نہیں؟
اَچار ، لیموں ، اَنار ، آم ، ٹاٹری ، اِملی
کسی کے حُسن کو بن مانگے باج دیتے ہیں
وَزیر ، میر ، سپاہی ، فقیہہ ، ذوقِ شہی
نگاہیں چار ہُوئیں ، وَقت ہوش کھو بیٹھا
صدی ، دَہائی ، برس ، ماہ ، روز ، آج ، اَبھی
وُہ غنچہ یکجا ہے چونکہ وَرائے فکر و خیال!
پلک نہ جھپکیں تو دِکھلاؤں پتّی پتّی اَبھی؟
٭٭٭
سیاہ زُلف: گھٹا ، جال ، جادُو ، جنگ ، جلال
فُسُوں ، شباب ، شکارَن ، شراب ، رات گھنی
جبیں: چراغ ، مقدر ، کشادہ ، دُھوپ ، سَحَر
غُرُور ، قہر ، تعجب ، کمال ، نُور بھری
ظریف اَبرُو: غضب ، غمزہ ، غصہ ، غور ، غزل
گھمنڈ ، قوس ، قضا ، عشق ، طنز ، نیم سخی
پَلک: فسانہ ، شرارت ، حجاب ، تیر ، دُعا
تمنا ، نیند ، اِشارہ ، خمار ، سخت تھکی
نظر: غزال ، محبت ، نقاب ، جھیل ، اَجل
سُرُور ، عشق ، تقدس ، فریبِ اَمر و نہی
نفیس ناک: نزاکت ، صراط ، عدل ، بہار
جمیل ، سُتواں ، معطر ، لطیف ، خوشبو رَچی
گلابی گال: شَفَق ، سیب ، سرخی ، غازہ ، کنول
طلسم ، چاہ ، بھنور ، ناز ، شرم ، نرم گِری
دو لب: عقیق ، گُہر ، پنکھڑی ، شرابِ کُہن
لذیذ ، نرم ، ملائم ، شریر ، بھیگی کلی
نشیلی ٹھوڑی: تبسم ، ترازُو ، چاہِ ذَقن
خمیدہ ، خنداں ، خجستہ ، خمار ، پتلی گلی
گلا: صراحی ، نوا ، گیت ، سوز ، آہ ، اَثر
ترنگ ، چیخ ، ترنم ، ترانہ ، سُر کی لڑی
ہتھیلی: ریشمی ، نازُک ، مَلائی ، نرم ، لطیف
حسین ، مرمریں ، صندل ، سفید ، دُودھ دُھلی
کمر: خیال ، مٹکتی کلی ، لچکتا شباب
کمان ، ٹوٹتی اَنگڑائی ، حشر ، جان کنی
پری کے پاؤں: گلابی ، گداز ، رَقص پرست
تڑپتی مچھلیاں ، محرابِ لب ، تھرکتی کلی
٭٭٭
جناب! دیکھا سراپا گلابِ مرمر کا!
اَبھی یہ شعر تھے ، شعروں میں چاند اُترا کبھی؟
غزل حُضُور بس اَپنے تلک ہی رَکھیے گا
وُہ رُوٹھ جائے گا مجھ سے جو اُس کی دُھوم مچی
جھکا کے نظریں کوئی بولا اِلتماسِ دُعا
اُٹھا کے ہاتھ وُہ خیراتِ حُسن دینے لگی
کشش سے حُسن کی چندا میں اُٹھے مد و جزر
کسی کو سانس چڑھا سب کی سانس پھول گئی
جو اُس پہ بوند گری ، اَبر کپکپا اُٹھا
اُس ایک لمحے میں کافی گھروں پہ بجلی گری
قیامت آ گئی خوشبو کی ، کلیاں چیخ پڑیں
گلاب بولا نہیں ، غالبا وُہ زُلف کھلی
طواف کرتی ہے معصومیت یوں کم سِن کا
کہ قتل کر دے عدالت میں بھی ، تو صاف بری!
بدن پہ حاشیہ لکھنا ، نگاہ پر تفسیر
مقلدین ہیں شوخی کے اَپنی شیخ کئی
تمام شہر میں سینہ بہ سینہ پھیل گئی
کسی کے بھیگے لبوں سے وَبائے تشنہ لبی
گلاب اور ایسا کہ تنہا بہار لے آئے
بہشت میں بھی ہے گنجان شوخ گُل کی گلی
کمالِ لیلیٰ تو دیکھو کہ ’’صرف‘‘ نام لیا
’’پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘
گلابی آنکھوں میں ایسے بھنور تھے مستی کے
شراب ڈُوب کے اُن میں بہت حلال لگی
جسارَت ’’عکس‘‘ پہ لب رَکھنے کی نہیں کرتے
بہت ہُوا بھی تو پلکوں سے گدگدی کر دی
نجانے پہلی نظر کیوں حلال ہوتی ہے
کسی کے حُسن پہ پہلی نظر ہی مہنگی پڑی
چمن میں ’’پھول نہ توڑیں‘‘ لکھا تھا سو ہم نے
گلاب زادی کو پہنا دی تتلیوں کی لڑی
کسی کا زُلف کو لہرا کے چلنا ، اُف توبہ!
شرابِ نابِ اَزل کے نشے میں مست پری
وُہ بولتا ہے تو کانوں میں شَہد گھولتا ہے
مریضِ قند پہ قدغن ہے اُس کو سننے کی
کلی کو چھوڑ کے نقشِ قدم پہ بیٹھ گئی
قلم ہلائے بنا تتلی نے غزل کہہ دی
صنم اور ایسا کہ بت اُس کے آگے جھک جائیں
دُعا دی اُس نے تو دو دیویوں کی گود بھری
عطائے حُسن تھی ، قیس اِک جھلک میں شوخ غزل
کتاب لکھتا میں اُس پر مگر وُہ پھر نہ ملی
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
Shahzad Qais
Famous Poets
View More Poets