Poetries by syed aqeel shah
زرا سا وقت بدلا ہے ہوا سے دوستی نہ کر ذرا سا وقت بدلا ہے ہوا سے دوستی نہ کر
تجھے اُونچا اُڑا کے یہ کہیں آخر گرائے گی
کبھی مت ریت پہ لکھنا کوئی حرفِ وفا ایسا
ہوا لفظوں کی اِس ترتیب کو آخر مٹائے گی
تجھے جلتے ہوئے خیموں پہ ہے اُمید کیا ایسی
سلگتی آگ کو آ کر ہوا زیادہ جلائے گی
عجب اُمید ہے دیکھو حبس میں اب پرندوں کو
مگر آندھی اگر آئی شجر سارے گرائے گی
بہت غلطی پہ ہیں بستی کے باسی اِس چراغاں میں
ہوا اپنے سفر میں تو دیے سارے بجھائے گی
عقیل ایسی کوئی یاری تجھے کیا راس آنی ہے
ہوا کی دوستی تو خاک ہی تیری اُڑئے گی Syed Aqeel Shah
تجھے اُونچا اُڑا کے یہ کہیں آخر گرائے گی
کبھی مت ریت پہ لکھنا کوئی حرفِ وفا ایسا
ہوا لفظوں کی اِس ترتیب کو آخر مٹائے گی
تجھے جلتے ہوئے خیموں پہ ہے اُمید کیا ایسی
سلگتی آگ کو آ کر ہوا زیادہ جلائے گی
عجب اُمید ہے دیکھو حبس میں اب پرندوں کو
مگر آندھی اگر آئی شجر سارے گرائے گی
بہت غلطی پہ ہیں بستی کے باسی اِس چراغاں میں
ہوا اپنے سفر میں تو دیے سارے بجھائے گی
عقیل ایسی کوئی یاری تجھے کیا راس آنی ہے
ہوا کی دوستی تو خاک ہی تیری اُڑئے گی Syed Aqeel Shah
وہ چھوٹی سی گلی وہ لکڑی کا ڈنڈا وہ چھوٹی سی گلی وہ لکڑی کا ڈنڈا
وہ کرسی کی وکٹیں وہ چھوٹا سا بلا
وہ چھوٹی سی اپنی کھلونوں کی دنیا
وہ گلیوں کی رونق وہ گھر کا محلہ
گرا کے وہ چوڑی کے ٹکڑے بنانا
وہ پھولوں کے گجرے وہ نقلی سا چھلا
وہ چھوٹی سی گڑیا کی شادی کی رونق
وہ پیسوں کے سکے وہ مٹی کا گلہ
نہ خوشیاں ہیں اب کے نہ رونق رہی ہے
وہ چھوٹی سی دنیا بڑی ہو گئی ہے
syed Aqeel shah
وہ کرسی کی وکٹیں وہ چھوٹا سا بلا
وہ چھوٹی سی اپنی کھلونوں کی دنیا
وہ گلیوں کی رونق وہ گھر کا محلہ
گرا کے وہ چوڑی کے ٹکڑے بنانا
وہ پھولوں کے گجرے وہ نقلی سا چھلا
وہ چھوٹی سی گڑیا کی شادی کی رونق
وہ پیسوں کے سکے وہ مٹی کا گلہ
نہ خوشیاں ہیں اب کے نہ رونق رہی ہے
وہ چھوٹی سی دنیا بڑی ہو گئی ہے
syed Aqeel shah
دھوپ کے خوف سے بے نام و نشاں چھوڑ گیا دھوپ کے خوف سے بے نام و نشاں چھوڑ گیا
مجھ کو سایہ بھی مرا لا کے کہاں چھوڑ گیا
مٹ گیا شہر تہہِ خاک تو گمنامی میں
جل بجھی راکھ پہ صدیوں کا دھواں چھوڑ گیا
کون سمجھے کہ سرابوں کے سفر میں کیا ہے
قافلہ اپنی حقیقت میں گماں چھوڑ گیا
جب میں پلٹا تو مجھے کوئی بھی پہچانا نہیں
میں وہاں کب تھا زمانہ یہ جہاں چھوڑ گیا
شور اُٹھا ہے کہیں حشر کی پاتال تلک
کون اس درجہ اداسی میں مکاں چھوڑ گیا
عشق کا کھیل بھی اک کارِ تجارت تھا عقیل
دل کے بازار میں سارا ہی زیاں چھوڑ گیا syed Aqeel shah
مجھ کو سایہ بھی مرا لا کے کہاں چھوڑ گیا
مٹ گیا شہر تہہِ خاک تو گمنامی میں
جل بجھی راکھ پہ صدیوں کا دھواں چھوڑ گیا
کون سمجھے کہ سرابوں کے سفر میں کیا ہے
قافلہ اپنی حقیقت میں گماں چھوڑ گیا
جب میں پلٹا تو مجھے کوئی بھی پہچانا نہیں
میں وہاں کب تھا زمانہ یہ جہاں چھوڑ گیا
شور اُٹھا ہے کہیں حشر کی پاتال تلک
کون اس درجہ اداسی میں مکاں چھوڑ گیا
عشق کا کھیل بھی اک کارِ تجارت تھا عقیل
دل کے بازار میں سارا ہی زیاں چھوڑ گیا syed Aqeel shah
وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی تو لوگوں کی طرح
راہ میں ہر کسی پتھر کو نہ ٹھوکر پہ رکھو
کچھ پڑے سنگ بھی ہوتے ہیں نگینوں کی طرح
جسم ہلکان ہو زخموں سے تو ایسا بھی نہیں
خون بہہ سکتا ہے آنکھوں سے بھی اشکوں کی طرح
بوجھ پر بوجھ اُٹھائے ہوئے آ نکلے ہیں
کہیں بے سمت بھٹکتے ہوئے اونٹوں کی طرح
عمر گزری ہے کسی دھوپ کی حدت میں عقیلؔ
دشت کی ریت پہ جلتے ہوئے پودوں کی طرح
syed Aqeel shah
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی تو لوگوں کی طرح
راہ میں ہر کسی پتھر کو نہ ٹھوکر پہ رکھو
کچھ پڑے سنگ بھی ہوتے ہیں نگینوں کی طرح
جسم ہلکان ہو زخموں سے تو ایسا بھی نہیں
خون بہہ سکتا ہے آنکھوں سے بھی اشکوں کی طرح
بوجھ پر بوجھ اُٹھائے ہوئے آ نکلے ہیں
کہیں بے سمت بھٹکتے ہوئے اونٹوں کی طرح
عمر گزری ہے کسی دھوپ کی حدت میں عقیلؔ
دشت کی ریت پہ جلتے ہوئے پودوں کی طرح
syed Aqeel shah
دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زباں بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے تو الگ بات
ہم خود کوئی لشکر کبھی پسپا نہیں کرتے
اک ضبطِ مسافت ہے زمانے کی کڑی دھوپ
گھر سے بنا چادر لئے نکلا نہیں کرتے
جس شہر میں جانا نہ ہو لوگوں سے سر ِراہ
اس شہر کا رستہ کبھی پوچھا نہیں کرتے
بن جائیں تو پھر ان کی پرستش کی مصیبت
پتھر کبھی اس طرح تراشا نہیں کرتے
عقیل کوئی بات ہے خاموش سی لب پر
کچجھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے Syed Aqeelshah
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زباں بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے تو الگ بات
ہم خود کوئی لشکر کبھی پسپا نہیں کرتے
اک ضبطِ مسافت ہے زمانے کی کڑی دھوپ
گھر سے بنا چادر لئے نکلا نہیں کرتے
جس شہر میں جانا نہ ہو لوگوں سے سر ِراہ
اس شہر کا رستہ کبھی پوچھا نہیں کرتے
بن جائیں تو پھر ان کی پرستش کی مصیبت
پتھر کبھی اس طرح تراشا نہیں کرتے
عقیل کوئی بات ہے خاموش سی لب پر
کچجھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے Syed Aqeelshah
خشکی میں بهی دریاؤں سے ملتا ہے سمندر خشکی میں بهی دریاؤں سے ملتا ہے سمندر
لگتا ہے مگر پهر بهی کہ پیاسا ہے سمندر
جانے مرے اس خواب کی تعبیر بهی کیا ہو
دیکها تها کہ دریا سے نکلتا ہے سمندر
پر سوز ہو جیسے یہ کڑی دهوپ کی زد میں
صحرا میں بهٹکتا ہوا لگتا ہے سمندر
مٹ جاتے ہیں اس میں کئی گرتے ہوئے دریا
دریا میں بهلا کب کوئی گرتا ہے سمندر
جتنا بهی ہے پهیلا ہوا یہ حد _نظر تک
عقیل یہ انسان سے چهوٹا ہے سمندر Syed Aqeel shah
لگتا ہے مگر پهر بهی کہ پیاسا ہے سمندر
جانے مرے اس خواب کی تعبیر بهی کیا ہو
دیکها تها کہ دریا سے نکلتا ہے سمندر
پر سوز ہو جیسے یہ کڑی دهوپ کی زد میں
صحرا میں بهٹکتا ہوا لگتا ہے سمندر
مٹ جاتے ہیں اس میں کئی گرتے ہوئے دریا
دریا میں بهلا کب کوئی گرتا ہے سمندر
جتنا بهی ہے پهیلا ہوا یہ حد _نظر تک
عقیل یہ انسان سے چهوٹا ہے سمندر Syed Aqeel shah
کچھ اس لئے بھی مجھے خوف اب ہوا کا ہے کچھ اس لئے بھی مجھے خوف اب ہوا کا ہے
مرے مکان پہ سایہ کسی ردا کا ہے
بہت اداس ہوں اے ساعتِ قضا ٹھہرو
کڑا ہے وقت تو لمحہ یہی دُعا کا ہے
حسیں رتوں کی جواں چاندنی سمیٹ کے رکھ
اب اِس کے بعد ہر دن کڑی سزا کا ہے
وہ کھوج جس کے لئے عمر رائیگاں گزری
وہی سراغ کسی اور نقشِ پا کا ہے
ہر ایک بات تو مدت کی ہو چکی تھی طے
ہمارے بیچ کا جھگڑا فقط انا کا ہے
میں عہدِ جبر میں خاموش اِس لئے ہوں عقیلؔ
کہ عدل جیسا بھی ہو فیصلہ خدا کا ہے syed Aqeel shah
مرے مکان پہ سایہ کسی ردا کا ہے
بہت اداس ہوں اے ساعتِ قضا ٹھہرو
کڑا ہے وقت تو لمحہ یہی دُعا کا ہے
حسیں رتوں کی جواں چاندنی سمیٹ کے رکھ
اب اِس کے بعد ہر دن کڑی سزا کا ہے
وہ کھوج جس کے لئے عمر رائیگاں گزری
وہی سراغ کسی اور نقشِ پا کا ہے
ہر ایک بات تو مدت کی ہو چکی تھی طے
ہمارے بیچ کا جھگڑا فقط انا کا ہے
میں عہدِ جبر میں خاموش اِس لئے ہوں عقیلؔ
کہ عدل جیسا بھی ہو فیصلہ خدا کا ہے syed Aqeel shah
بکھرے ہوئے لمحوں کے مقدر پہ کھڑا ہے بکھرے ہوئے لمحوں کے مقدر پہ کھڑا ہے
یہ کون مرے عکسِ تصور پہ کھڑا ہے
اِس شہر کے ہر ایک مکاں پہ ہے پڑی دھوپ
سایہ ہے کہ مدت سے مرے گھر پہ کھڑا ہے
توفیق اگر ہو تو فقط لفظ ہی دے دو
سائل تو بڑی دیر سے اِس در پہ کھڑا ہے
صدیوں کی مسافت میں زمیں ہونے لگی تنگ
کوہسار وہی اب بھی مرے سر پہ کھڑا ہے
احباب کی گنتی میں جو اِک شخص تھا پہلا
اب یہ کہ ہے فہرست میں آخر پہ کھڑا ہے
صحرا ہے عقیلؔ دھوپ کی شدت سے ہے پیاسا
بادل ہے کہ جب دیکھو سمندر پہ کھڑا ہے syed Aqeel shah
یہ کون مرے عکسِ تصور پہ کھڑا ہے
اِس شہر کے ہر ایک مکاں پہ ہے پڑی دھوپ
سایہ ہے کہ مدت سے مرے گھر پہ کھڑا ہے
توفیق اگر ہو تو فقط لفظ ہی دے دو
سائل تو بڑی دیر سے اِس در پہ کھڑا ہے
صدیوں کی مسافت میں زمیں ہونے لگی تنگ
کوہسار وہی اب بھی مرے سر پہ کھڑا ہے
احباب کی گنتی میں جو اِک شخص تھا پہلا
اب یہ کہ ہے فہرست میں آخر پہ کھڑا ہے
صحرا ہے عقیلؔ دھوپ کی شدت سے ہے پیاسا
بادل ہے کہ جب دیکھو سمندر پہ کھڑا ہے syed Aqeel shah
بے کار ہی سہی مگر کچھ تو ہنر رہا بے کار ہی سہی مگر کچھ تو ہنر رہا
لوگوں کے درمیان تھا محوِ سفر رہا
اِک پل میں جیسے عمر کی صدیاں سمٹ گئیں
جتنا طویل فاصلہ تھا مختصر رہا
میرا خلوص ہی مری قیمت تھی شہر میں
سب مفلسوں کے درمیاں میں معتبر رہا
بنجر زمین کیا ہوئی بارش سے پوچھیے
جو پیڑ بھی ہوا یہاں وہ بے ثمر رہا
شب کے سکوت میں رہیں ڈوبی حویلیاں
یہ کون اس گلی میں تھا جو دربدر رہا
یوں ہم رکاب تھا کہ سرِ کارواں عقیلؔ
کچھ فاصلے سے تھا مگر وہ ہمسفر رہا Syed Aqeel shah
لوگوں کے درمیان تھا محوِ سفر رہا
اِک پل میں جیسے عمر کی صدیاں سمٹ گئیں
جتنا طویل فاصلہ تھا مختصر رہا
میرا خلوص ہی مری قیمت تھی شہر میں
سب مفلسوں کے درمیاں میں معتبر رہا
بنجر زمین کیا ہوئی بارش سے پوچھیے
جو پیڑ بھی ہوا یہاں وہ بے ثمر رہا
شب کے سکوت میں رہیں ڈوبی حویلیاں
یہ کون اس گلی میں تھا جو دربدر رہا
یوں ہم رکاب تھا کہ سرِ کارواں عقیلؔ
کچھ فاصلے سے تھا مگر وہ ہمسفر رہا Syed Aqeel shah
کچھ اِس لئے محرم کوئی اکثر نہیں بنتا کچھ اِس لئے محرم کوئی اکثر نہیں بنتا
سایہ بھی کبھی قد کے برابر نہیں بنتا
میں کیا ہوں فقط ایک اداسی کا مسافر
لوگوں سے اجالا بھی ہو رہبر نہیں بنتا
وقتی ہی سہارا سبھی دیتے ہیں کوئی بھی
حالات کی قبروں کا مجاور نہیں بنتا
خود ہار میں جاتا ہوں ہر اک جنگِ انا میں
اُس سے کبھی جذبات کا لشکر نہیں بنتا
صحرا کو کہیں کھینچ کے دریاؤں میں لے جا
قطروں کو ملانے سے سمندر نہیں ملتا
لکھوں جو عقیلؔ اُس کو ملتے ہی نہیں لفظ
سوچوں تو کبھی اُس کا تصور نہیں بنتا Syed Aqeel shah Poetry
سایہ بھی کبھی قد کے برابر نہیں بنتا
میں کیا ہوں فقط ایک اداسی کا مسافر
لوگوں سے اجالا بھی ہو رہبر نہیں بنتا
وقتی ہی سہارا سبھی دیتے ہیں کوئی بھی
حالات کی قبروں کا مجاور نہیں بنتا
خود ہار میں جاتا ہوں ہر اک جنگِ انا میں
اُس سے کبھی جذبات کا لشکر نہیں بنتا
صحرا کو کہیں کھینچ کے دریاؤں میں لے جا
قطروں کو ملانے سے سمندر نہیں ملتا
لکھوں جو عقیلؔ اُس کو ملتے ہی نہیں لفظ
سوچوں تو کبھی اُس کا تصور نہیں بنتا Syed Aqeel shah Poetry
تھکے چہرے بجھی آنکھوں کو اکثر دیکھ لیتا ہوں تھکے چہرے بجھی آنکھوں کو اکثر دیکھ لیتا ہوں
میں خوشیوں میں بھی یہ دُکھ کے مناظر دیکھ لیتا ہوں
مجھے حیرت نہیں ہوتی مری تذلیل کچھ بھی ہو
میں کیا ہوں جھانک کر اپنے یہ اندر دیکھ لیتا ہوں
کبھی دریا میں اُتروں تو قدم پڑتا ہے خشکی پہ
کبھی صحرا کے نیچے سے سمندر دیکھ لیتا ہوں
جو منزل پا گئے وہ قافلے گنتا نہیں ہوں میں
جو منزل تک نہ پہنچا ہو مسافر دیکھ لیتا ہوں
عقیلؔ اپنی حفاظت میں کوئی رستہ نہ ہو پھر بھی
جو میری سمت کو نکلے وہ لشکر دیکھ لیتا ہوں Syed Aqeel shah
میں خوشیوں میں بھی یہ دُکھ کے مناظر دیکھ لیتا ہوں
مجھے حیرت نہیں ہوتی مری تذلیل کچھ بھی ہو
میں کیا ہوں جھانک کر اپنے یہ اندر دیکھ لیتا ہوں
کبھی دریا میں اُتروں تو قدم پڑتا ہے خشکی پہ
کبھی صحرا کے نیچے سے سمندر دیکھ لیتا ہوں
جو منزل پا گئے وہ قافلے گنتا نہیں ہوں میں
جو منزل تک نہ پہنچا ہو مسافر دیکھ لیتا ہوں
عقیلؔ اپنی حفاظت میں کوئی رستہ نہ ہو پھر بھی
جو میری سمت کو نکلے وہ لشکر دیکھ لیتا ہوں Syed Aqeel shah
ویران دشت ہے حدِ نظر کوئی بھی نہیں ویران دشت ہے حدِ نظر کوئی بھی نہیں
میں چل رہا ہوں بظاہر سفر کوئی بھی نہیں
ہر ایک شخص ہے سردار اِس قبیلے میں
مگر نظر میں مری معتبر کوئی بھی نہیں
ہم پنچھیوں کی طرح روز لَوٹ جاتے ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی اب کے گھر کوئی بھی نہیں
اگر یہ دیکھوں کوئی کئی کارواں ہیں میرے ساتھ
اگر یہ سوچوں تو مرا ہمسفر کوئی بھی نہیں
تُو پھر حکمِ جبر دے تو پھر یہ سوچ کے رکھ
مری عوام میں اب بے خبر کوئی بھی نہیں
عقیلؔ درد کا صحرا یہ ختم ہو گا کہیں
اگرچے دھوپ ہے راہ میں شجر کوئی بھی نہیں
Syed Aqeel shah
میں چل رہا ہوں بظاہر سفر کوئی بھی نہیں
ہر ایک شخص ہے سردار اِس قبیلے میں
مگر نظر میں مری معتبر کوئی بھی نہیں
ہم پنچھیوں کی طرح روز لَوٹ جاتے ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی اب کے گھر کوئی بھی نہیں
اگر یہ دیکھوں کوئی کئی کارواں ہیں میرے ساتھ
اگر یہ سوچوں تو مرا ہمسفر کوئی بھی نہیں
تُو پھر حکمِ جبر دے تو پھر یہ سوچ کے رکھ
مری عوام میں اب بے خبر کوئی بھی نہیں
عقیلؔ درد کا صحرا یہ ختم ہو گا کہیں
اگرچے دھوپ ہے راہ میں شجر کوئی بھی نہیں
Syed Aqeel shah
فراتِ ہجر میں بے آسرا بھی تھا اک شخص فراتِ ہجر میں بے آسرا بھی تھا اِک شخص
انا کی دھوپ میں پتھر بھی ہو گیا اِک شخص
تمام شہر پہ وحشت اُسی کے ہجر کی تھی
گئے دنوں میں جو مجھ سے جدا ہوا اِک شخص
کنارے پر تھے اُسے بے بسی سے دیکھتے لوگ
صدائیں دیتا رہا دریا میں ڈوبتا اِک شخص
کوئی تھا دوست یا دشمن یا اجنبی تھا کوئی
بڑی ہی دیر مجھے دیکھتا رہا اِک شخص
یہ صدیوں پھیلی جدائی مٹا بھی سکتے تھے
اے کاش میرے لئے کچھ دیر سوچتا اِک شخص
عقیلؔ جس کے بنا جینے کا حوصلہ بھی نہ تھا
تمام عمر وہی میرا نہ ہو سکا اِک شخص
سید عقیل شاہ
انا کی دھوپ میں پتھر بھی ہو گیا اِک شخص
تمام شہر پہ وحشت اُسی کے ہجر کی تھی
گئے دنوں میں جو مجھ سے جدا ہوا اِک شخص
کنارے پر تھے اُسے بے بسی سے دیکھتے لوگ
صدائیں دیتا رہا دریا میں ڈوبتا اِک شخص
کوئی تھا دوست یا دشمن یا اجنبی تھا کوئی
بڑی ہی دیر مجھے دیکھتا رہا اِک شخص
یہ صدیوں پھیلی جدائی مٹا بھی سکتے تھے
اے کاش میرے لئے کچھ دیر سوچتا اِک شخص
عقیلؔ جس کے بنا جینے کا حوصلہ بھی نہ تھا
تمام عمر وہی میرا نہ ہو سکا اِک شخص
سید عقیل شاہ
عمر گزری ہے اگر ساری وفا دیتے ہوئے عمر گزری ہے اگر ساری وفا دیتے ہوئے
ہونٹ رُک جاتے ہیں کیوں اُس کو دعا دیتے ہوئے
وقت کے ساتھ پرندوں نے بھی فطرت بدلی
خود بھی سو جاتے ہیں بچوں کو غذا دیتے ہوئے
یہ محبت بھی تری طرح منافق تو نہیں
روز ملتی ہے مجھے زخم نیا دیتے ہوئے
وقت پڑنے پہ کبھی کام بھی آ سکتا ہے
سوچنا راہ میں مسافر کو دغا دیتے ہوئے
حبس ہے یا کہ ہے ماحول نزاع کی زد میں
پیڑ کیوں ہانپنے لگتے ہیں ہوا دیتے ہئے
اب بھی ہے دور ِ یزیدی وہی کوفہ وہی شام
لوگ ڈر جاتے ہیں عورت کو ردا دیتے ہوئے
سانسیں جتنی ہیں محشر کا ہیں وہ قرض عقیل
زندگی لیتی ہے محصول بقا دیتے ہوئے syed aqeel shah urdu poetry ghazal
ہونٹ رُک جاتے ہیں کیوں اُس کو دعا دیتے ہوئے
وقت کے ساتھ پرندوں نے بھی فطرت بدلی
خود بھی سو جاتے ہیں بچوں کو غذا دیتے ہوئے
یہ محبت بھی تری طرح منافق تو نہیں
روز ملتی ہے مجھے زخم نیا دیتے ہوئے
وقت پڑنے پہ کبھی کام بھی آ سکتا ہے
سوچنا راہ میں مسافر کو دغا دیتے ہوئے
حبس ہے یا کہ ہے ماحول نزاع کی زد میں
پیڑ کیوں ہانپنے لگتے ہیں ہوا دیتے ہئے
اب بھی ہے دور ِ یزیدی وہی کوفہ وہی شام
لوگ ڈر جاتے ہیں عورت کو ردا دیتے ہوئے
سانسیں جتنی ہیں محشر کا ہیں وہ قرض عقیل
زندگی لیتی ہے محصول بقا دیتے ہوئے syed aqeel shah urdu poetry ghazal
ستارے توڑنے والوں خراجِ چاندنی دینا ستارے توڑنے والوں خراجِ چاندنی دینا
دہکتی دھوپ کو چھاؤں میں لا کر اک خوشی دینا
محبت بانٹ لینے سے یہ دولت اور بڑھتی ہے
کوئی مانگے اگر تم سے تو اُس کو زندگی دینا
میں اپنی عمر کے عاشور کا ڈھلتا ہوا سورج
نئی صبح کو میرا اب سلامِ آخری دینا
کہیں اپنے ہی اندھیروں میں ہے بکھرا ہوا آخر
وہ اک سورج کہ جس کے فرض میں تھا روشنی دنیا
زمانے کی کوئی دولت نہ دے لیکن مرے مالک
مجھے مخلص مرے رشتوں میں کوئی نہ کمی دینا
یہاں پہ دفن کر جاؤ سبھی فرقے یہ سب ذاتیں
نئی نسلوں کو ہرگز نہ یہ زہرِ دشمنی دینا
عقیلؔ اپنی ہی افکاروں میں خود برباد ہوتیں ہیں
جو قومیں بھول جاتی ہیں زمانے کو ہنسی دینا syed aqeel shah
دہکتی دھوپ کو چھاؤں میں لا کر اک خوشی دینا
محبت بانٹ لینے سے یہ دولت اور بڑھتی ہے
کوئی مانگے اگر تم سے تو اُس کو زندگی دینا
میں اپنی عمر کے عاشور کا ڈھلتا ہوا سورج
نئی صبح کو میرا اب سلامِ آخری دینا
کہیں اپنے ہی اندھیروں میں ہے بکھرا ہوا آخر
وہ اک سورج کہ جس کے فرض میں تھا روشنی دنیا
زمانے کی کوئی دولت نہ دے لیکن مرے مالک
مجھے مخلص مرے رشتوں میں کوئی نہ کمی دینا
یہاں پہ دفن کر جاؤ سبھی فرقے یہ سب ذاتیں
نئی نسلوں کو ہرگز نہ یہ زہرِ دشمنی دینا
عقیلؔ اپنی ہی افکاروں میں خود برباد ہوتیں ہیں
جو قومیں بھول جاتی ہیں زمانے کو ہنسی دینا syed aqeel shah
اب کوئی گھر ہے نہ دیوار نہ در میرا ہے اب کوئی گھر ہے نہ دیوار نہ در میرا ہے
جس کی منزل ہی نہیں ایسا سفر میرا ہے
اُس کو پانے کی نہ کوشیش کی ہمیشہ سوچا
خود ہی مل جائے گا وہ شخص اگر میرا ہے
شہر سے دُور ویرانے میں جو کچھ ملبہ ہے
اُس کے کھنڈرات کے اندر کہیں گھر میرا ہے
صحن میں چھاؤں نہ پنچھی نہ ہوا نہ خوشبو
اب کے موسم میں ہر اک سوکھا شجر میرا ہے
بے بسی بکھرے ہوئے خواب اداسی اور تُو
یہ کسی اور کا ملبہ ہے مگر میرا ہے
ہم تو ہیں گزرے زمانے کی روایت میں عقیلؔ
یہ جو مسمار ابھی تک ہے نگر میرا ہے
syed aqeel shah
جس کی منزل ہی نہیں ایسا سفر میرا ہے
اُس کو پانے کی نہ کوشیش کی ہمیشہ سوچا
خود ہی مل جائے گا وہ شخص اگر میرا ہے
شہر سے دُور ویرانے میں جو کچھ ملبہ ہے
اُس کے کھنڈرات کے اندر کہیں گھر میرا ہے
صحن میں چھاؤں نہ پنچھی نہ ہوا نہ خوشبو
اب کے موسم میں ہر اک سوکھا شجر میرا ہے
بے بسی بکھرے ہوئے خواب اداسی اور تُو
یہ کسی اور کا ملبہ ہے مگر میرا ہے
ہم تو ہیں گزرے زمانے کی روایت میں عقیلؔ
یہ جو مسمار ابھی تک ہے نگر میرا ہے
syed aqeel shah
تھک کے گر جائیں گے صحرا میں سفر چھوڑیں گے تھک کے گِر جائیں گے صحرا میں سفر چھوڑیں گے
قحط پڑتے ہی پرندے سبھی گھر چھوڑیں گے
تھک کے ڈوبے گا کہیں دن کا ستایا سورج
شام کو سائے اداسی میں شجر چھوڑیں گے
نسلِ آدم سے بقا میں ہے وجودِ ہستی
ختم ہو جائے گی دنیا جو بشر چھوڑیں گے
اپنے الفاظ کی زد میں سے بچا رکھ مجھ کو
حادثے ہونگے تو پھر دُور اثر چھوڑیں گے
ترکُ دنیا کا یہ پردہ وہ فقیروں کے لباس
بھوک بڑھتے ہی یہ درویش نگر چھوڑیں گے
اُس کو کھونا تو نہ آساں تھا زمانے میں عقیل
چھوڑنا موت کے جیسا ہے مگر چھوڑیں گے syed aqeel shah
قحط پڑتے ہی پرندے سبھی گھر چھوڑیں گے
تھک کے ڈوبے گا کہیں دن کا ستایا سورج
شام کو سائے اداسی میں شجر چھوڑیں گے
نسلِ آدم سے بقا میں ہے وجودِ ہستی
ختم ہو جائے گی دنیا جو بشر چھوڑیں گے
اپنے الفاظ کی زد میں سے بچا رکھ مجھ کو
حادثے ہونگے تو پھر دُور اثر چھوڑیں گے
ترکُ دنیا کا یہ پردہ وہ فقیروں کے لباس
بھوک بڑھتے ہی یہ درویش نگر چھوڑیں گے
اُس کو کھونا تو نہ آساں تھا زمانے میں عقیل
چھوڑنا موت کے جیسا ہے مگر چھوڑیں گے syed aqeel shah
وہ جس کے عشق نے سب سے جدا رکھا ہے مجھے وہ جس کے عشق نے سب سے جدا رکھا ہے مجھے
اُسی ہی شخص نے اکثر خفا رکھا ہے مجھے
زمانے تُو نے تو سانسیں ہی چھین لی تھیں مری
یہ تو خدا ہے کہ جس نے بچا رکھا ہے مجھے
خطِ بقا پہ کوئی نقش تو ابھرنے دے
یہ کیا زمانے سے تُو نے مٹا رکھا ہے مجھے
ضرورتوں کی زمیں پر تمہارے دنیا نے
غموں کی بھیڑ میں اب تک کھڑا رکھا ہے مجھے
اِسی لئے تو کسی کی طرف جھکا میں نہیں
مرے ہی یاروں نے اتنا بُرا رکھا ہے مجھے
میں ابنِ حوا کی دنیا کا اک بشر ہوں عقیل
خدا نے خوف کے گھر میں بسا رکھا ہے مجھ syed aqeel shah (urdu poetry ghazal)
اُسی ہی شخص نے اکثر خفا رکھا ہے مجھے
زمانے تُو نے تو سانسیں ہی چھین لی تھیں مری
یہ تو خدا ہے کہ جس نے بچا رکھا ہے مجھے
خطِ بقا پہ کوئی نقش تو ابھرنے دے
یہ کیا زمانے سے تُو نے مٹا رکھا ہے مجھے
ضرورتوں کی زمیں پر تمہارے دنیا نے
غموں کی بھیڑ میں اب تک کھڑا رکھا ہے مجھے
اِسی لئے تو کسی کی طرف جھکا میں نہیں
مرے ہی یاروں نے اتنا بُرا رکھا ہے مجھے
میں ابنِ حوا کی دنیا کا اک بشر ہوں عقیل
خدا نے خوف کے گھر میں بسا رکھا ہے مجھ syed aqeel shah (urdu poetry ghazal)
در ِخیال سے آگے نکل کے سوچنا ہے درِ خیال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
مجھے ملال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تُو میرا ہو گا یا کھو جائے گا کہیں تُو بھی
اب اِس سوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
گذشتہ رُت میں تو ماضی کے دُکھ تھے اور تُو تھا
اب مجھ کو حال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
بچھڑ کے تم سے ملوں گا تو پھر سے بچھڑوں گا
مجھے وصال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تجھے عروج مبارک رہے مجھے تو خیر
ابھی زوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
ہنر تمام ہوا داد مل گئی ہے تو کیا
مجھے کمال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
عقیل درد کی پرچھائیاں کہاں تک ہیں
گذشتہ سال آگے نکل کے سوچنا ہے Syed aqeel shah
مجھے ملال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تُو میرا ہو گا یا کھو جائے گا کہیں تُو بھی
اب اِس سوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
گذشتہ رُت میں تو ماضی کے دُکھ تھے اور تُو تھا
اب مجھ کو حال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
بچھڑ کے تم سے ملوں گا تو پھر سے بچھڑوں گا
مجھے وصال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تجھے عروج مبارک رہے مجھے تو خیر
ابھی زوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
ہنر تمام ہوا داد مل گئی ہے تو کیا
مجھے کمال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
عقیل درد کی پرچھائیاں کہاں تک ہیں
گذشتہ سال آگے نکل کے سوچنا ہے Syed aqeel shah