میری چوڑیاں تمہیں پکارتی ہیں
تمہاری دید کی خاطر راستہ نہارتی ہیں
کہاں چھپ گئے ہو مہتاب بن کے
اتر آؤ میرے اندھیروں میں آفتاب بن کے
میں کاجل لگاؤ تمہیں سامنے بٹھا کر
تم زمانے کو بھول جاؤ مجھے اپنے سامنے بٹھا کر
اس خاموشی کو توڑ دو کچھ پل کے لیے
تلخیوں کا دامن چھوڑ دو کچھ پل کے لیے
آؤ اک دوجے میں کھو جاتے ہیں
اک دوسرے پے سر رکھ کر سو جاتے ہیں