حیات خوشنما کے زوا لوں کی وجہ بن کر
آج پوچھتے ہو محبت کی ابتدا کے رنگ
بکھرنے کیے سوالوں کا
مکرنے کیے کمالوں کا
تمہیں معلوم ھے ٹٹولو ذرا خود کو
وہ اس دن جب پہلی بار
تمہارا نام لینے سے میرا وجود سنبھلا تھا
وہ جب تم نے میرے زخموں میں
تسلیوں کا مرہم رکھا تھا
میرے آنسو سبھی تم نے دامن میں چھپا ے تھے
وہ جب تکلیف تو میری تھی مگر آنسو تم نے بھا ے تھے
وہ جب کھلے تھے لب میرے مگر دل میں گل تم نے سجا یے تھے
وجود سحر تم سے تھی شب نورستا تم سے تھی
میں وہ انمٹ کہانی ہوں
جو بھولی جا نہیں سکتی
تلازم با ندھہ کر دیکھو ماضی چھانٹ کر دیکھو
محبت کہ سبھی موسم ذرا تم ناپ کر دیکھو
خودی یہ جا ن جا ؤ گے
مجھے پہچا ن جاؤ گے