آئنیے سے نظریں چرائے پھر رہی ہوں
کہ اپنے چہرے میں تیرا چہرہ دیکھ لیا
خود کو بہلانے کے لیے نکالی تھی کتابیں
مسلسل رہا تیرا خیال خود کو بہلا کر دیکھ لیا
ُاس نے کبھی چاہا ہی نہیں مجھے
یوں بھی خود کو سمجھا کر دیکھ لیا
دن میں یادیں اور رات کو خواب جینے نہیں دیتے
یہ بھی ُاسے ہم نے بتا کر دیکھ لیا
اب بھی وہ نا پلٹے تو کیا کریں گئے آخر
دعاوں میں بھی ہم نے ہاتھ ُاٹھا کر دیکھ لیا
اک پل میں کیسے بدل گئے رشتے سارے
خود کو ہم نے ُاس کا بتا کر دیکھ لیا