آئینہ بن کے اپنا تماشا دکھائیں ہم
یوں سامنے رہیں کہ نظر بھی نہ آئیں ہم
ممکن ہے دور جشن چراغاں ہو جب یہاں
وہ تیرگی بڑھے کہ صحیفے جلائیں ہم
درپیش ہے گزشتہ رتوں کا سفر ہمیں
حیرت نہ کر کہ لوٹ کے واپس نہ آئیں ہم
توفیق سیر باغ اگر ہو تو اب کی شام
دل کی جگہ شجر پہ پرندے بنائیں ہم
خاموش ہو رہو کہ سر شہر آرزو
افتاد وہ پڑی ہے کہ اب کیا بتائیں ہم