یہ زلفیں رخ زیبا سے ذرا ہٹا دیجے
عید کو ترستے ہیں،چاند ذرا دکھا دیجے
شب وصل گزر نہ جائے یونہی خاموش
کانوں میں رس گھولیے، لب ذرا ہلا دیجیے
گرمی جذبات سے پگھل رہا ہوں لمحہ لمحہ
زلفوں کی چھاؤں کیجیے،آنچل ذرا ہلا دیجیے
نغمہء بلبل اداس ہے اور ساز بہار خاموش
آءیے تو چمن میں، ہلچل ذرا مچا دیجیے
منزل عشق کٹھن اور رستے دشوار بہت
دو گام پہ ہے منزل،گر ذرا وفا دیجیے
میں بادہ کش نہ بالا نشیں مگر آج کی رات
جام ان آنکھوں سے دو چار ذرا پلا دیجیے
یہ ساتھ نہ رہا تو کیا لطف زندگی کا
مرے ساتھ رہیے، جینے کا ذرا مزا دیجیے
رشک اس پر،جسے دیکھا کیے وہ صبح وشام
یا رب! کاشف دیوانے کو آئینہ ذرا بنا دیجیے