پھولوں سے نالش ہے تو چمن بھی اجاڑ دو
آئینہ مکار کو توڑو بگاڑ دو
سنتے ہیں کہ لوگ لوٹ کے لے جاتے ہیں متاع
اب کرلو تم احتیاط اور دل کو کواڑ دو
تنکے کا سہارا تو کافی نہیں مجھ کو
ڈوبنے سے بچوں کیسے تم کوئی پہاڑ دو
گہرے ہو تم ساگر سے اب چھپ ہو کیا ہوا
رودے گی ساری بستی ذرا دل تو جھاڑ دو
ہنستی ہوئی محفل کو سوگوار یوں کردو
صادق ذرا سنبھل کے کچھ دل کو دراڑ دو