آئینہ ہاتھ میں دن رات لئے پھرتے ہیں
روبرو گردش حالات لئے پھرتے ہیں
دیکھنا حسن کے ان فتنہ گروں سے بچ کے
جیت کے بھیس میں جو مات لئے پھرتے ہیں
زندگی نام ہے فرہاد کی تیشہ گری کا
آپ تو مہندی لگے ہاتھ لئے پھرتے ہیں
یوں مجھے دیکھتے جاتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
جیسے ماتھے پہ مکافات لئے پھرتے ہیں
جان من دیکھنا فرصت کے چار لمحوں میں
ہم بھی جزبوں کی کرامات لئے پھرتے ہیں
ان کے دالان میں کھلتے ہیں شگوفے ہر دم
ہم وہاں یونہی غم ذات لئے پھرتے ہیں
دیکھ کر مجھ کو کہا دشت کی ویرانی نے
آپ پھر زندگی کی بات لئے پھرتے ہیں ؟