کچھ اپنی زندگی پہ بھی مجھ کو ملال ہے
کچھ ان کا بھی ہے غم جنھیں جینا محال ہے
آئے گا کیسے ملک میں کوئی بھی انقلاب
ساری عوام مست ہے جیسا بھی حال ہے
حد درجہ مشکلات میں مفلس ہیں آج بھی
یہ سال نو بھی ان کے لیے غم کا سال ہے
ان شاعرانہ باتوں سے جیتوں میں کیسے دل
لوگوں کو تو عزیز تر دنیا کا مال ہے
اوروں کے واسطے تو بچھاتا رہا سدا
اب جس میں قید ہو گیا تیرا ہی جال ہے
ملزم کو ہر سزا سے وہ آخر بچا گیا
اپنی دلیل پر اسے حاصل کمال ہے
آپس میں لڑ رہے ہیں یوں مدت سے ہم یہاں
کچھ تو سمجھ اے دوست یہ دشمن کی چال ہے
اس زندگی میں الجھنیں لاکھوں سہی مگر
آتا تو آج بھی مجھے تیرا خیال ہے
شہرت و علم و حسن و دولت پہ ناز کیوں ؟
زاہد ہر اک عروج کو آخر زوال ہے